واشنگٹن (جیوڈیسک) اسرائیل اور امریکا نے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ ان دونوں ممالک کا موقف ہے کہ یہ عالمی ادارہ اسرائیل کے حوالے سے جانبدارانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکا اور اسرائیل نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کر لینے کا فیصلہ سن 2017 میں کیا تھا۔ ان کے اس فیصلے پر عمل درآمد سن 2018 کے اختتام اور سن 2019 کے آغاز پر ہوا۔ یونیسکو نے واضح کر دیا تھا کہ قواعد و ضوابط کے تحت ان دونوں ممالک کی اس ادارے سے علیحدگی سن 2018 کے اختتام پر ہی ممکن تھی۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی معاملات کی نگران تنظیم یونیسکو پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ منظم انداز میں ایسی امتیازی پالیسیاں اپنائے رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو پوری طرح جانبدارانہ، اسرائیل مخالف اور ناقابل قبول ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے گزشتہ ویک اینڈ پر کہا تھا کہ یونیسکو کے ذریعے یہودی قوم سے نفرت کے جذبات رکھنے والا ایک مخصوص حلقہ خطے کی تاریخ دوبارہ مرتب کرنے کی کوشش میں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یونیسکو سے اسرائیل کی علیحدگی کے باوجود عالمی ورثے کے طے شدہ معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل بدستور ورلڈ ہیریٹیج کنونشن کا حصہ رہے گا کیونکہ عالمی ورثے میں شامل کی گئی کئی تاریخی عمارات اور مقامات اسرائیلی ریاست کی جغرافیائی حدود کے اندر واقع ہیں اور اس کا انتظام و انصرام اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں شمولیت سن 1949 میں اختیار کی تھی۔ اس ادارے نے اسرائیل میں نو مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ ان میں بحیرہ مردار کے کنارے واقع ایسے مقامات بھی شامل ہیں، جن کا انجیل میں بھی ذکر کیا گیا ہے، مثال کے طور پر حیفہ اور تل ابیب جیسے شہروں کے قدیمی مقامات۔ اس عالمی ثقافتی ادارے نے مشرقی یروشلم کی جغرافیائی حیثیت پر بھی سوال اٹھا رکھا ہے۔ اسی طرح گزشتہ برس خود مختار فلسطینی علاقوں میں واقع تین مقامات کو بھی عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دے دیا گیا تھا۔
یونیسکو وہ پہلا عالمی ادارہ ہے، جس نے سن 2011 میں فلسطین کو مکمل رکنیت دی تھی اور اس فیصلے پر اسرائیل نے شدید برہمی کا اظہار کیا تھا۔ فلسطین کو رکنیت دینے کے بعد سابق امریکی صدر باراک اوباما نے یونیسکو کے لیے سالانہ امریکی فنڈز کی فراہمی روک دی تھی۔ امریکی فنڈز یونیسکو کے مجموعی بجٹ کا بائیس فیصد بنتے تھے۔ یہ فیصلہ اُس قومی امریکی قانون کی روشنی میں کیا گیا تھا، جو فلسطین کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔