راستے بدلتی، بھٹکتی، یوٹرن لیتی حکومت کا کوئی نظریہ ہے نہ اصول اور نہ ہی پالیسیوں میں تسلسل، البتہ ”الجھاؤ ہے زمیں سے، جھگڑا ہے آسماں سے”۔ پھڈا بیک وقت اُن 2 سیاسی جماعتوں کے ساتھ جن کے 4 عشرے خاردارِ سیاست میں ٹھوکریں کھاتے، تختۂ دار پہ جھولتے، جانیں قربان کرتے، جیلیں بھگتتے اور جلاوطنیاں کاٹتے گزر چکے۔ وہ سیاسی بساط کے ماہراور عوام میں پذیرائی اب بھی تحریکِ انصاف سے کہیں زیادہ۔ کیا کپتان اور اُن کے ڈال ڈال پر پھدکنے والے ”ٹولے” میں اتنی بصارت وبصیرت ہے کہ وہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ کر سکیں؟۔ میاں نوازشریف اور آصف زرداری (کسی مصلحت یا دباؤ کے تحت) تا حال تو ایک دوسرے سے نالاںلیکن حالات بتاتے ہیں کہ اُنہیں بہرحال ایک ہونا پڑے گا اور وہ وقت زیادہ دور بھی نہیںجب ”پَت جھڑ” کا موسم شروع ہوگا، اپوزیشن کے تیز بگولوں کی زَد میں آکر پتّے جھڑجائیں گے اور درخت ٹُنڈمُنڈ۔ ایسا ہونا اظہرمِن الشمس کہ کپتان کی تشکیل کردہ تحریکِ انصاف کہیں نظر نہیں آتی۔ کپتان کے ارد گر گھومنے والے یہ سبھی وہ رَس چوسنے والے بھنورے ہیں جنہیں ”پھُر” ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایسا کرتے ہوئے اِنہیں پہلے کبھی شرم آئی، نہ اب آئے گی۔ یہ بھی عین حقیقت کہ جن اتحادیوں کے بَل پر یہ حکومت استوار، اُن میں سے کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ایسی نہیں جس کے خلاف کپتان ماضی میں زہر نہ اُگل چکے ہوں۔ فی الحال تو یہ اتحادی مصلحتوں کی ”بُکل” مارے ہوئے لیکن بُکل کھُلتے بھلا دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
اگر کوئی اِس خوش فہمی میں مبتلاء کہ ”پَت جھَڑ” کے بعد صحنِ چمن میں بہار آئے گی تو یہ اُس کی بھول کیونکہ تاریخِ پاکستان اِس کی تصدیق نہیں کرتی۔ انجام اِس افراتفری کا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ”میرے عزیز ہم وطنوں” کی گونج ایک دفعہ پھر پاکستان کے درودیوار ہلا دے گی اور بقول ضیاء الحق مرحوم ”100 صفحے کی فضول سی کتاب” بند کر دی جائے گی۔ تاریخ گواہ کہ پاکستان میں طالع آزماؤں کو حقِ حکمرانی بخشنے والے جج بھی دستیاب ہو جاتے ہیںاور 10 بار وردی میں منتخب کروانے کے دعویدار بھی۔ جب آمریت کی گھنگور گھٹائیں اُٹھتی ہیںتو بڑے بڑوں کا پِتّہ پانی ہو جاتا ہے۔ طالع آزماؤں کے لیے اب تو آسانیاں ہی آسانیاں، اُنہیں اپنی کابینہ تلاش نہیں کرنی پڑے گی کہ کپتان کی کابینہ وہیں سے تو سمگل ہوئی ہے۔ خوش فہموں کے لیے یہ لطیفہ ۔۔۔۔۔ 2 دوست جنگل میں جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے سوال کیا ”اگر سامنے سے شیر آجائے تو تم کیا کروگے؟”۔ دوسرے نے جواب دیا ”جو کرے گا شیر ہی کرے گا، میں نے کیا خاک کرنا ہے”۔ تلخ حقیقت یہی کہ فوج نے جب آنا ہوتا ہے، آ جاتی ہے۔ یہ بھی سچ کہ فوج کبھی خود نہیں آتی بلکہ بلائی جاتی ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب مسندِ اقتدار میں اُلجھے سیاستدان باہم جوتم پیزار ہو جاتے ہیں۔ آجکل ہمارے سیاستدان اُنہی راہوں پہ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر کپتان نے گزشتہ 5 ماہ میں کچھ کرکے دکھایا ہوتا تو شاید عوام کی اُمیدیں دَم نہ توڑتیںاور مضبوط حکومت کا تاثر ابھرتا لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں کا کوئی سَرہے نہ پَیر اور ”اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کَل سیدھی” کے مصداق ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں”۔ کپتان کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر انتخابات میں اِس حالت میں اُترے کہ اُن کے دائیں بائیں کرپشن کے مگرمچھوں کی فوج ظفرموج نظر آئی۔ دعویٰ اُن کا یہ تھا کہ اگر حاکم کرپٹ نہ ہو تو اُس کے ساتھی خود بخود سدھر جاتے ہیں۔ فی الحال تو نہ صرف یہ کہ ایسا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ کپتان کے دامن میں بھرے کرپٹ اُن کی پناہ میں ہیں جن کی طرف نَیب آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکتی ہے نہ دوسرا کوئی ادارہ البتہ ”بابا رحمت” جو کبھی کبھار ”کھڑاک” کر دیتے ہیں، اب وہ بھی 17 جنوری کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے گھر سدھاریں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس محترم آصف سعید کھوسہ صاحب میاں ثاقب نثار کی پالیسیاں جاری رکھتے ہیں یا ”ہر کہ آمد، عمارتِ نَو ساخت” کے مصداق عدل کی بہم رسانی کے لیے نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔
اِس سے قطع نظر کہ محترم عمران خاں ”الیکٹ” ہوئے یا ”سلیکٹ” اُنہیں اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مسندِ اقتدار تو نصیب ہو گئی مگر منتقم مزاج حکمرانوں نے اپوزیشن کو رسوا کرنے کے لیے پکڑ دَھکڑ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اُس کے وزراء نَیب سمیت ہر ادارے کے ترجمان بن بیٹھے۔ اطلاعات ونشریات کی وزارتوں نے حکومتی ترجمانی کی بجائے بدزبانی اور بدکلامی کی انتہا کردی۔ شیخ رشید، فوادچودھری اور فیاض چوہان جیسے لوگ ہی سیاست میں ”گند گھولنے” کے لیے کافی تھے مگر اب فیصل واوڈا بھی میدان میں کود پڑے۔ اُن کی بَدکلامی کا عالم یہ کہ ”کی جس سے بات، اُس نے شکایت ضرورکی”۔وہ تو اہلِ صحافت تک سے پنجہ آزما ہو جاتے ہیں۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کیس پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے جے آئی ٹی تشکیل دی اور حکم دیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس کسی بھی صورت میں ”لیک” نہیں ہونی چاہییں لیکن ہوا یہ کہ جے آئی ٹی کی سِربمہر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع ہونے سے قبل ہی اُس کے مندرجات حکومتی وزراء کے ہاتھوں میں پہنچ گئے جنہوں نے سندھ حکومت کے جانے کی پیشین گوئیاں شروع کر دیں۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اِس رپورٹ کی سمری پروجیکٹر پر چلانے کا حکم صادر فرمایا تاکہ خلقِ خُدا بھی آگاہ ہوسکے۔بعد ازاں چیف جسٹس صاحب نے اگلی پیشی تک مزید تحقیق کا حکم دیا۔ حکمرانوں کو ہر کام میں جلدی ہی بہت ہوتی ہے۔
اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر جے آئی ٹی میں موجود 172 ناموں کو ای سی ایل پر ڈال دیا۔ اِن ناموں میں آصف زرداری، بلاول زرداری اور فریال تالپور کے علاوہ سندھ کے وزیرِاعلیٰ مرادعلی شاہ کا نام بھی شامل تھا۔ ای سی ایل پر ڈالی گئی اِس فہرست کی بنا پر پیپلزپارٹی میں شدید بے چینی اور ارتعاش پیدا ہوا لیکن حکمران تو معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کرنے کی بجائے سندھ حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حکومتی وزراء میڈیا پر دعوے کر رہے تھے کہ سندھ حکومت ”جاوے ای جاوے”۔ اگلی پیشی پر بابا رحمت نے حکمرانوں کی جو کھنچائی کی، وہ تاریخِ عدل میں ہمیشہ یادرکھی جائے گی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں اُنہوں نے فرمایا کہ یہ ایک عام سی رپورٹ ہے جس کی سپریم کورٹ نے ابھی تک توثیق بھی نہیں کی پھر بھی سندھ کے وزیرِاعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ اُنہوں نے وزیرِداخلہ کو 15 منٹ کے اندر سپریم کورٹ پہنچنے کا حکم دیا۔ وزیرِمملکت داخلہ شہریار آفریدی ہانپتے کانپتے سپریم کورٹ پہنچے اور ای سی ایل پر ڈالے گئے 172 افراد کی فہرست پر نظرثانی کا حکم لے کر لوٹے۔ اُدھر فوادچودھری جو سندھ حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ لے کر کراچی جانے والے تھے، اُنہیں بھی وزیرِاعظم نے روک دیا۔ اِس سارے معاملے میں تحریکِ انصاف کو جہاں بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، وہاں پیپلزپارٹی بھی بغلیں بجاتی نظر آئی۔
چاہیے تو یہ تھا کہ حکمران اِس” عزت” کے بعدپھونک پھونک کر قدم اُٹھاتے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُنہیں گھرلوٹنے کی جلدی ہی بہت ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہزیمت کی گونج ابھی باقی تھی کہ حکمرانوں نے ایک نیا دھماکہ کر تے ہوئے حکومتی مشیر عبدالرزاق داؤد کی کمپنی کو مہمندڈیم کا ٹھیکہ دے دیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 300 ارب روپے کا یہ ٹھیکہ واحد بولی کی بنیاد پر دیا گیا جو پیپرا رولز کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔ اخلاقی طور پر بھی رزاق داؤد کی کمپنی کو یہ ٹھیکہ نہیں لینا چاہیے تھا۔ حقیقت مگر یہ کہ رزاق داؤد کا مطمح نظر وزارت نہیں، اپنا کاروبار ہے۔ یہ وہی رزاق داؤد ہیں جنہیں نواز حکومت میں سی پیک پر ٹھیکے نہیں ملے تو وہ حکومت کے مخالف ہوگئے۔ محترم عمران خاں جو حضرت ابوبکرصدیقکی مثال دیا کرتے تھے کہ اُنہوںنے خلافت سنبھالتے ہی اپنا کپڑے کا کاروبار بند کر دیا، اب کیا کہتے ہیںبیچ اِس مسٔلے کے؟۔۔۔۔