بنکاک (جیوڈیسک) تھائی لینڈ کے حکام نے خلیج کی قدامت پسند مسلم بادشاہت سعودی عرب کی ایک ایسی اٹھارہ سالہ لڑکی کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، جو جنوب مشرقی ایشیا کی اس بادشاہت میں اپنے لیے سیاسی پناہ کی خواہش مند تھی۔
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے اتوار چھ جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حکام نے بتایا کہ آج ہی بذریعہ ہوائی جہاز بنکاک پہنچنے والی یہ سعودی لڑکی تھائی لینڈ میں اپنے لیے سیاسی پناہ کی درخواست دینا چاہتی تھی لیکن امیگریشن حکام نے اسے ایئر پورٹ پر ہی روک لیا۔
تھائی لینڈ میں امیگریشن کے محکمے کے سربراہ سوراچاتے ہاکپارن نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس سعودی خاتون شہری کا نام راہف محمد القانون ہے اور، خود اس کے بقول، وہ اپنی زبردستی کی شادی سے بچنے کے لیے اپنے گھر سے فرار ہو کر تھائی لینڈ پہنچی تھی۔‘‘
سوراچاتے ہاکپارن کے مطابق، ’’اس سعودی لڑکی کو خدشہ ہے کہ اب واپس سعودی عرب جانے پر اسے بہت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
ہاکپارن نے کہا کہ یہ سعودی لڑکی چاہتی تھی کہ اسے تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ دے دی جائے تاہم اس سلسلے میں تھائی حکام نے بنکاک میں سعودی سفارت خانے سے رابطہ کر لیا ہے تاکہ یہ معاملہ حل کیا جا سکے۔
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
سعودی عرب کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہریوں کی طرف سے کسی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دیے جانے کے واقعات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
راہف محمد القانون کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے نمائندوں نے بھی اے ایف پی کو بتایا کہ جب یہ سعودی خاتون شہری بنکاک کے سووارنابھومی ایئر پورٹ پر پہنچی، تو اسے وہاں موجود سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ریاست کویت کے چند اہلکاروں نے بھی روک لیا اور انہوں نے راہف کا پاسپورٹ بھی زبردستی اپنے قبضے میں لے لیا۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر راہف محمد کے حق میں ایک باقاعدہ مہم بھی شروع ہو چکی ہے اور اسے بچانے کے لیے SaveRahaf# ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کئی سرکردہ کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر راہف کو زبردستی واپس سعودی عرب بھیجا گیا، تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
اس واقعے کے بارے میں ریاض میں سعودی حکومت کا کوئی بھی موقف آخری خبریں ملنے تک سامنے نہیں آیا تھا۔