غیر قانونی تجاوزات و تعمیرات کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ کورنگی میں کے ڈی اے اراضی پر سینکڑوں غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیاگیا۔ جبکہ کراچی کی ایک اور تاریخی اور اہم نوعیت کی بڑی تجارتی مارکیٹ گارڈن مارکیٹ ( چڑیا گھر) کی 405سے زاید دکانوں کو تین روزہ آپریشن میں گرانے کا سلسلہ شروع کردیا گیاہے۔ یہ گزشتہ40برسوں سے پختہ مارکیٹ جو چڑیا گھر کے اطراف میں قائم تھی ۔ ایمپریس مارکیٹ ، جامع کلاتھ و دیگر اہم مارکیٹوں کی طرح تجارتی اعتبار سے اہمیت کی حامل گارڈن مارکیٹ تھی جہاں ٹرانسپورٹ سے متعلق اسپیئر پارٹس کا کاروبار ہوتا تھا۔ اس سے قبل گارڈن مارکیٹ ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں کامیابی نہ مل سکی ۔ اس بار قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری کے ساتھ آپریشن کیا جارہا ہے ۔ تاہم زیادہ تر تاجروں اور دکانداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت گودام اور دکانیں خالی کرنا شروع کردی تھی۔
سپریم کورٹ کے احکامات پرہزاروں کی تعداد میں کئی عشروں سے قائم چھوٹے پیمانے کے کاروبار کو ناقابل تلافی پہنچا تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ابھی تک کوئی ایسا پروگرام میئر کراچی یا سندھ حکومت نے نہیں دیا جس سے لاکھوں بے روزگار ہوجانے والوں کی کچھ تلافی ممکن ہوسکتی ۔ آپریشن تسلسل سے جاری ہے اور بڑے پیمانے پر بلدیاتی ادارے، غیر قانونی تعمیرات کے خلاف انہدامی کاروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر چھوٹے پیمانے پر کاروائی کی گئی اور وہ چابک دستی و پھرتی نظر نہیں آئی جو اس سے قبل تجاوزات و کاروباری علاقوں میں دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ادارے سرکلر ریلوے کی بحالی میں حائل بلڈرز مافیا سمیت پکے مکانات کے خلاف مربوط اآپریشن کرنے میں تامل کا شکار ہیں۔ریلوے کی زمین پر صرف لینڈ مافیا ہی نہیں بلکہ کئی سرکاری اداروں نے بھی قبضہ کررکھا ہے ۔ اہل کراچی کے لئے ٹرانسپورٹ اہم ترین اور دیرینہ مسئلہ ہے ۔ سرکلر ریلوے اور ٹرام بسیں چلانے کے دعوے کئی برسوں سے کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک اس پر کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہوسکا ، خاص کر گرین لائن میٹروبس سروس منصوبہ غیر ضروری تاخیر کا شکار ہے۔ جس سے عام عوام سمیت اُن علاقوں کے رہائشیوں کو بھی تکلیف و مشکلات کا سامنا ہے جہاں بس روٹ کے لئے کھدائیاں کیں گئیں ۔ ان منصوبوں کے وجہ سے سڑکیں بھی مزید تباہ حال ہوچکی ہیں ۔ وفاقی حکومت غیر ضروری تاخیر کو ختم کراکر جلد ازجلد اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔گورنر سندھ کا دعویٰ ہے کہ چھ مہینے میں گرین لائن میٹرو بس کو فعال کردیاجائے گا ۔ جبکہ اس سے قبل اپریل 2018تکمیل مدت کی تاریخ دی گئی تھی۔
وفاق حکومت کی جانب سے تو کراچی کے لئے اعلان کیا جانے والا ترقیاتی پیکچ بھی ابھی تک ہوا میں معلق ہے۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان سیاسی کشیدگی کے بعد وفاقی ترقیاتی پیکچ کا معاملہ مزید کھٹائی میں پڑچکا ہے۔ کراچی سے منتخب ہونے اراکین اسمبلی کی تند وتیز بیانات اور جارحانہ الزامات کے علاوہ پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم پاکستان سے کئے جانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ ابھی تک ایم کیو ایم پاکستان پی ٹی آئی کو اُن کے وعدے ہی یاد دلا رہی تھی کہ ان کے فلاحی ادارے خدمت خلق فائونڈیشن کے اثاثے منی لانڈرنگ کے الزام میں ضبط کرلئے گئے۔ بابر غور ی ، سنیٹر احمد علی، سہیل منصور و دیگر پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے ۔ خدمت خلق فاوندیشن کے اثاثے ضبط کئے جانا ، ایم کیو ایم پاکستان کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے ۔ اتحادی جماعت ہونے کے ناطے ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے رجوع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس صورتحال میںاہل کراچی پی ٹی آئی اور پی پی پی کے درمیان چپقلش کے بعد اب ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان شروع ہونے والی نئی محاذ آرائی سے ترقیاتی کاموں کے جلد آغاز نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی حکومت و سندھ حکومت اپنے اپنے حصے و اتحادیوں کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں پر جلد از جلد عمل درآمد کرائیں۔
کراچی میں قانون و جرم کے درمیان مقابلہ جاری ہے.کرااچی میں ترقیاتی کاموں و اہم مسائل کا مستقل حل نہ نکلنا اور تو دوسری جانب امن کا استحکام بھی دشوار کن صورتحال کا شکار ہے۔ ماورائے عدالت قتل کا جاری رہنا دراصل انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ ڈیفنس تھانے کے اہلکاروں کی جانب سے گزشتہ دنوں ایک ڈرائیور کو حراست کے دوران ہلاک کرنے پر مقدمہ درج کرلیا گیا ۔ جبکہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے ملزم سابق ایس پی رائو انوار پولیس سروس سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ اعلی حکام ، عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان نے نقیب اللہ قتل کیس کے حوالے سے جلد ازجلد انصاف کی یقین دہانی کرائی تھی۔تاہم نقیب اللہ محسود او ر اس کے ساتھ مزید تین نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل پر متاثرہ خاندانوں کو فوری انصاف کا نہ ملنا بڑے گھمبیر مسائل کو جنم دے رہاہے۔ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے بعد پی ٹی ایم تنظیم نے شہرت حاصل کی اور اس تنظیم کے ریاست مخالف بیانات کے بعد صورتحال تشویش ناک ہوتی چلی گئی ۔ ضرورت اس بات کی ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے و عدلیہ مزید کسی نئے مسئلے کو بڑھاوا ملنے سے قبل نقیب اللہ محسود و دیگر کے لواحقین کوجلد انصاف فراہم کیا جائے ، انصاف میں تاخیر سے ملکی وحدت کو نقصان پہنچانے والوں کو فائدہ پہنچے گا اور عام شہری بھی متاثر ہوئے بغیر نہ سکے گا ۔
کراچی میں امن کے لئے رینجرز نے پانچ برسوں کے درمیان کارکردگی کی متاثر کن رپورٹ پیش کی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ رینجرز نے مختلف مراحل میں کراچی آپریشن کا آغاز کیا اور قیام امن کے لئے بھرپور کاروائیاں کیں ۔ رینجرز کو اس بات کا مکمل کریڈٹ جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کی سرپرستی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ آپریشن کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں گرفتاریوں پر اُس وقت بعض جماعتوں کو کوئی تحفظات نہیں تھے لیکن جب تیسرے اور چوتھے مرحلے میں بڑی مچھلیوں پر جس طرح ہاتھ ڈالا گیا تو بعض حلقوں نے آپریشن پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار شروع کردیا ۔
رینجرز نے بارود کے ڈھیر سے اہل کراچی کو محفوظ بنانے کے لئے بڑے بڑے اسلحہ ذخائر بھی برآمد کئے ۔تاہم جس بڑی تعداد میں رینجرز نے ملزموں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ، اس کے برخلاف ماتحت عدالتوں میں تیزی کے ساتھ ان مقدمات کی شنوائی نہیں ہوسکی ۔ گو کہ ان مقدمات کو خصوصی طور قائم عدالتوں میں چلائے جانے کی کوشش کی گئی ۔لیکن مقدمات سست روی کا شکار ہیں ۔ عوام کو امن دشمنوں کا انجام نظر آنا ضروری ہے تاکہ ان کا عتماد بحال ہو۔ 5برس میں 2210دہشت گرد1881 ٹارگٹ کلرز کا انجام بھی سامنے لائے جانا ضروری ہے ۔ رینجرز نے15ہزار 838 آپریشنزمیں بھتہ خوروں ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو گرفتار کرکے قانون کے حوالے کیاہے ۔اہل کراچی رینجرز کی کارکردگی کو سراہاتے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں تاہم اگر اس حوالے سے بھی رپورٹ سامنے آسکے کہ گرفتار11 ہزار619خطرناک ملزموں میں اب تک کتنے ملزمان اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے ہیں تو اس آگاہی سے اہل کراچی کے اعتما د کو مزید بحال کرنے میں مدد ملے گی۔