دن بدن دیکھنے میں آتا ہے کہ آئے روز نت نئے ناموں اور ٹریڈ مارکس کے ساتھ سو سائٹیز والے سر گرم نظر آتے ہیں، گو کہ یہ بات ہمارے معاشرے کے لیے ایک خوش آئند ہے کہ ان ہائوسنگ سو سائٹیز کے اندر ایک Well Developed معاشرے کا قیام عمل پذیر ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس تصویر کا دوسرا رخ کبھی کسی نے دیکھا ہے ، جو کہ ایک غور طلب ہونے کے ساتھ ہماری توجہ کا ایک اہم موضوع ہے۔ مگر ہم سب اول تو اس سے آشنا نہیں ہیں یا پھر ہم اس کبوترکی طرح آنکھوں کو بند کیے ہوئے ہیں جو بلی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر آنکھیں بند کر دیتا ہے، اور خیال کرتا ہے کہ بلی مجھے نہیں دیکھ سکتی، مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔۔۔
دنیا ئے عالم اس وقت جس اہم مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کا شکار ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی ہے جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔۔۔جی ہاں ۔۔۔ ہم سو سائٹیزکے قیام کے لیے بڑے شوق و ذوق کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ تو لیتے ہیںمگر ہماری نظر زرعی اراضی کی طرف نہیں جاتی ، ہم ان سوسائٹیز کے لیے ایسی زمین کوترجیح دیتے ہیں اور انتخاب کرتے ہیں جو کہ زراعت اور کھیتی باڑی کے لیے سب سے اہم اور موزوں جگہ ہوتی ہیں، اس میں کھڑی فصل کاخیال کیے بغیر پلاٹس بنانے کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے ہیں اور کھڑے درختوں کی بے دریغ کٹائی کر کے ان کو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے داموں فروخت کر کے دوبار ہ شجر کاری کرنا تو دور شجر کاری کے بارے میں خیال تک بھی نہیں لایا جاتایہی نہیں بلکہ ہم ان سو سائٹیز کے سیوریج کے نظام کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ سارا پانی باقی مانندہ زمینوں کو لگایا جاتا ہے یا پھر کسی ندی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے جوکھیتوں کو لگایا جاتا ہے۔۔۔
میری اس تحریر کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کو ان سو سائٹیز کی مخالفت کرنی چاہیے بلکہ بہترین رہائشی نظام اور جدید ترین سہولیات ِ زندگی، میٹرو ، اورنج ٹرین، جدیدسے جدید ہسپتال، سکول ، کالجز، یونیورسٹیز، بجلی، گیس ، پانی کے علاوہ دیگر آسائش ِ زندگی کا آسان ، جلد اور بہتر معیار میں ملنا ایک جدید معاشرے کی کامیابی کی اہم اور بڑی نشانی ہوتی ہے۔۔۔ مگر اس کے ساتھ ہم کو حقیقت سے پردہ بھی نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس بات کا خیال بھی رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان سو سائٹیز کے بے دریغ اور زرعی اراضی پر قیام ہونے کو اگر نہ روکا گیا تو عنقریب ہم اچھی اور اعلیٰ سے اعلیٰ اور جدید سے جدید رہائشی سو سائٹیز تو حاصل کر لیں گے مگر اس کے بدلے میں ہم کو اپنی زرعی زمین سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ درختوں اور سبز زارہ کے خاتمہ سے ایک انتہاء درجہ کی موسمیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرناشروع کردیں گے۔ مگر ادھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے ان سو سائٹیز سے حمایت بھی ہے اور ان سے مخالفت بھی بھلا یہ دونوں لازم و مظلوم نہیں تو پھر کیوں میں ایسی باتیں آج کر رہا ہوں ، تو میں اس سلسلے میں آپ کے تجسس کو ختم کرتے ہوئے آ پ کے ساتھ سیاست دانوں ، سرمایہ داروں، پراپرٹی ڈیلرزکے علاوہ دیگر با اثر افراد کی توجہ ایک ایسی ریاست کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ جو 1990 تک مکمل طور پر ایک ریگستان پر مشتمل تھی اور آج اُس کی طرف پوری دنیاکی نظریں جمی ہوئی ہیں۔جی ہاں میںیو اے ای کی ریاست دبئی کی بات کر رہا ہوں ۔
جہاں آج زندگی کی تمام تر آسائشیں اس ریاست کے اندر کچھ ہی عرصے میں کیسے اور کیوں کر ممکن ہو سکا۔۔۔؟ہر ایک کے ذہن میں ایک ہی جواب پیدا ہو ا ہو گا کہ جی ادھر تیل نکلا تو وہاں کا معاشرہ ترقی حاصل کر گیاتب وہ لوگ کامیاب ہو ئے۔۔۔!!! ضرور یہ بات بھی ہے مگر ہم اس بات پر ہی اکتفا نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ملک میں ذخائر کی کمی نہیں بلکہ ان کی تلاش کی جستجو کی ضرورت ہے۔
پھر دوسرا جواب ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ جی دبئی ساحل کے کنارے پر واقع ہے تب ۔۔۔ مگر کیا یہ ہی سوال میں آپ سے کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے سندھ و بلوچستان کے کچھ علاقے ساحل کے کنارے پر واقع نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟ خیر بات دوسری طرف نکلتی جا رہی ہے ، میں اصل میں آج بات کر رہا تھا ہائوسنگ سو سائٹیز کے بارے میں تو دبئی کے حکمرانوں نے ایسے وسائل اور اسباب پیدا کیے ہیںکہ آج ان کے ملک میں دنیاکے ہر کونے سے فارن انوسٹر آ کر اپنا سرمایہ بڑے اطمینان کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ او ر خود دبئی کی عوام ہر قسم کی پریشانی سے آزاد۔۔۔اگر ہم بھی اپنے ملک میں ایسے وسائل پیدا کریں نے جس طرح ایک ریگستان پر مشتمل ملک کو جدید ترین بنا دیاگیا تو کیا ہم ترقی نہیںکر سکتے ۔۔۔؟؟؟
ہمارے سرمایا دار و با اثر افراد زرعی اراضی پر سوسائٹیز بنانے کو ترجیح دینے کے بجائے ان اراضی پر رہاشی منصوبے پایہ ِ تکمیل دیں جو قابل زراعت نہ ہوں ۔۔۔ اپنے ملک کے وسائل کو استعمال کریں۔۔۔ اپنی مصنوعات سے پیار کریں ۔۔۔ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ فارن انوسٹر ہمارے ملک میںسرمایا کاری کے لیے بے خوف و خطر آ کر ہمارے ملک کی ترقی و تعمیر میں ہمارے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں۔۔۔ ہمیں اپنے حکمرانوں کا ساتھ بھی دینا ہو گا اور ان کو اِن مسائل سے آشکار بھی کروانا ہوگا۔یہ ہماری ذمہ داری ہے، اور اپنی ذمہ داریوں سے پیٹھ پھیرنے سے ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے میں ہی کامیابی ہو گی۔۔۔