اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق تحقیقات کا معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر مِس ڈیکلریشن ثابت ہوا تو عدالت عظمیٰ اس کو بھی دیکھے گی کہ اعظم سواتی اہل ہیں یا نہیں؟
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اعظم سواتی نے صرف وزارت سے استعفیٰ دیا ہے، ہم اس معاملے کو 62 ون ایف کے تحت دیکھ رہے ہیں’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کیا اعظم سواتی رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں؟’ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ابھی بھی وزارت پر اعظم سواتی کا نام چل رہا ہے’۔
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا، ‘آئی جی صاحب، آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟’
آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ‘اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی، نجیب اللہ، جان محمد، فیض محمود اور جہانزیب کے خلاف پرچہ درج کیا’۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘جو سارا کرتا دھرتا ہے، اس کے خلاف کچھ نہیں کیا؟ اس لیے کہ وہ بڑا آدمی ہے؟’
جسٹس ثاقب نثار نے مزید ریمارکس دیئے کہ ‘صرف ایک فون نہ سننے پر آئی جی تبدیل کردیا، پھر بھینس بھی نہیں نکلی’۔
جس پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے بتایا کہ ‘جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ آئی جی کے تبادلے میں اعظم سواتی کا کردار نہیں، لیکن تبادلہ اُسی دن کیا گیا جب آئی جی نے فون سننے سے انکار کیا’۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرکے کہا کہ ‘اگر لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو کس چیز کے آئی جی لگے ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘غریب لوگوں کو مارا پیٹا گیا، آپ سے کہا داد رسی کریں لیکن آپ بھی مل گئے’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرکے کہا، ‘عامر ذوالفقار، آپ کے بارے میں میرا تاثر بہت خراب ہوگیا ہے’۔
جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ‘جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی آگیا کہ وزیر کے ساتھ پولیس نے خصوصی برتاؤ کیا’۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا، ‘ہم مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے، ہم اعظم سواتی کو 62 ون ایف کا نوٹس کر دیتےہیں کیونکہ پولیس نے تو پرچہ درج کرنا نہیں’۔
اس موقع پر عدالتی معاون نے بتایا کہ ‘جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی نے 2 اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی کی’۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘جے آئی ٹی نے کچھ معاملات میں نیب کو مداخلت کی سفارش کی ہے’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے؟’
اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کے روبرو کہا کہ ‘ان کے موکل کے خلاف فوج داری مقدمہ ہے، عدالت پولیس کو ٹرائل کے لیے ہدایات دے سکتی ہے’۔
تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘جے آئی ٹی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا نہیں جا سکتا’۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدالت ایف بی آر کو اثاثوں کی تفتیش کا حکم بھی دے سکتی ہے جبکہ یہ معاملہ چیئرمین سینٹ کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ ‘اگر مِس ڈیکلریشن کا کیس ہو تو 62 ون ایف کے تحت نا اہل کرنےکی کارروائی ہوسکتی ہے’۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے عدالتی معاون کی تجویز پر اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ‘ایف بی آر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کرے گا’۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ‘مِس ڈیکلریشن ثابت ہوا تو سپریم کورٹ اس کو بھی دیکھے گا کہ اعظم سواتی اہل ہیں یا نہیں’۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘ہم پارلیمنٹ کی بے انتہا عزت کرتے ہیں، عدالت کا پہلے دن سے یہی موقف ہے ، سپریم کورٹ کے پاس شہادتیں اکٹھی کرنے سمیت ٹرائل کے مکمل اختیارات ہیں’۔
اس کے ساتھ ہی اعظم سواتی کے معاملے کی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کر دی گئی۔
آئی جی اسلام آباد تبادلہ اور اعظم سواتی تنازع کا پس منظر سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال (مِس کنڈکٹ) کے معاملے کی تحقیقات کے تانے بانے اُن کے صاحبزادے کی جانب سے ان کے فارم ہاؤس کے قریب رہائش پذیر ایک غریب خاندان کے خلاف مقدمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ملتے ہیں۔
اعظم سواتی نے اس معاملے پر اُس وقت کے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو کئی مرتبہ فون کرنے کا اعتراف کیا، یہ جھگڑا ابھی درمیان میں ہی تھا کہ جان محمد کو آئی جی اسلام آباد کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جس پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا۔
اعظم سواتی کے مِس کنڈکٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس نے وفاقی وزیر کے پڑوسیوں ساتھ تنازع میں بطور وزیر ان کے مِس کنڈکٹ کا تعین کرنا تھا۔
عدالت نے جے آئی ٹی کو 14 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اعظم سواتی اور ان کے بچوں کے اثاثے اور ٹیکس معاملات دیکھنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ کو بھی شامل تفتیش کیا اور گذشتہ برس 17 نومبر کو ایک سربمہر عبوری رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی۔
بعدازاں 19 نومبر کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی، جس میں اعظم سواتی اور ان کے ملازمین کو فارم ہاؤس پر جھگڑے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ واقعے کے اگلے دن ہی وزیر مملکت برائے داخلہ اور ایس ایس پی آپریشنز اعظم سواتی کے گھر گئے، پولیس اعظم سواتی کے خاندان کے ساتھ مل گئی اور اس واقعے کی ایماندارانہ تفتیش نہیں کی جبکہ پولیس افسران نے جان بوجھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق 30 اکتوبر کو فارم ہاؤس تنازع کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے نیاز علی کی ضمانت ہوگئی اور اعظم سواتی کے بیٹے نے کہا کہ انہیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد معاملہ راضی نامے سے حل کر لیا گیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیاز علی نے بتایا کہ اس کے گھر جرگہ آیا تھا، بطور پختون وہ جرگے کو انکار نہیں کرسکا اور ملزمان کو معاف کردیا۔
رپورٹ کے مطابق اعظم سواتی کی اہلیہ نیاز علی کے گھر اس کے بچوں کے لیے کپڑے لے کر آئیں، نیاز علی کے خاندان کو رقم کی پیش کش بھی کی گئی جو اس نے ٹھکرا دی اور یہ سب سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیاز علی خاندان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا جب کہ بطور وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی سے خصوصی طور پر نرم رویہ اختیار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مقدمے کی تفتیش پولیس کے جونیئر افسران نے کی، پولیس افسران نے جے آئی ٹی کو بتایا یہ عام نوعیت کا کیس تھا اس لیے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
جےآئی ٹی کی 5 جِلدوں پر مشمل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سواتی خاندان کا مؤقف جھوٹ پر مبنی،بے بنیاد اور تضادات سے بھرپور ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے 5 دسمبر 2018 کو آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف عدالت آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی کرے گی۔
جس کے بعد اگلے ہی روز اعظم سواتی نے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔