بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو

Sardar Kazim Ali

Sardar Kazim Ali

تحریر : صفدر علی حیدری

یتیمی ایک ایسا احساس ہے جس کی شدت صرف وہی جان سکتے ہیں جو اس کیفیت سے کبھی دوچار ہوئے ہوں ۔شایدہی کوئی ایسا انسان کبھی گزرا ہو یتیمی نے جسے آبدیدہ نہ کیا ہو۔میں بھی پانچ سال قبل اس درد سے ناآشنا سا تھا ۔نہیں جانتا تھا کہ اس دکھ کی نوعیت کیا ہوتی ہے اور شدت کیسی؟خود یتیم ہوا تب یہ راز کھلا کہ کیوں لوگ یتیم ہو جانے والوں کو گلے لگا لگا کر تسلی دیا کرتے ہیں ۔مانا کسی انسان کا نعم البدل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ،کبھی بھی نہیں ۔لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا بدل خداسے بھی تخلیق نہیں ہو پایا ۔یہ” اکہرے رشتے ”اسی طرح لا ثانی ہیں جیسے خود اسکی ذات ۔یہیں یہ بھید کھلا کہ وہ کیوں اپنی عبادت کے ساتھ والدین سے احسان کا تقاضاکرتا ہے۔اور تو اور اپنی لاریب کتاب میں ،وہ جو سب کا رب ہے والدین کو بھی اسی لفظ سے پکارتا ہے۔”اے اللہ رحم فرما ان پر جنہوں نے مجھے ”رب” بن کر پالا”۔کیسی عجیب بات ہے کہ اپنی محبت کے لئے اسے کوئی زمینی پیمانہ ملا تو وہ ماں تھی،والدین کے احسان اور مقام کو واضح کرنے کا خیال آیا تو انہیں ”رب” کے نام سے یاد کیا۔اور تواور میرے نبی نے جو سراسر رحمت ہیں ،انہوں نے بھی والدین کے ہوتے ہوئے جنت نا پاسکنے والے آدمی پر نفرین کی ہے ۔وہ جو پتھر کھا کر بھی دعائیں دیتے ہیں،سعادت سے یہ محرومی برداشت ہی نہ کر پائے۔جنابِ مو سیٰ کوہ ِ طورپر جاتے ہیں تو ماںاپنے لاڈلے کے لے دست دعا بلند کر لیتی ہے۔

یہ کیسا رشتہ ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں کہ جن کا دور ہوجاناایک سدا بہار دکھ بن کر رہ جاتا ہے ۔ کبھی نہ بھولنے والا دکھ ۔جن کی اہمیت ان کی موجودگی میں تو ہوتی ہی ہے ،جانے کے بعد اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔اتنی کہ لفظ عاجزی و ناتوانی سے سر جھکا لیا کرتے ہیں ۔میں اپنے نانا جان کو دیکھتاتو حیران رہ جاتا تھا کہ جب جب اپنی اماں یا ابا کو یاد کرتے، آنکھیں اظہارِ عقیدت سے چھلک جایا کرتیں ۔وہ آنسو یقینا موتی بن جاتے ہیں جو ”رب” کی یاد میں آنکھوں سے نکلتے ہیں ۔بزرگوں کی یہ روش کس قدر متاثر کن تھی کہ وہ کبھی اپنے اباء و اجداد کی وفات کا غم بھولتے تھے نہ وفا ت کا دن ۔ہر سال چاند کی اسی تاریخ کو انکے ایصالِ ثواب کے لئے پکوان پکانا اور انہیں رشتہ داروں ،غریبوں اور محلہ داروں میں تقسیم کرناایک ایسا مثالی عمل تھا جو رفتہ رفتہ معدوم ہوتا چلا گیا۔آج کسی کومہنگائی نے ،کسی کو غفلت نے تو کسی کو فتویٰ باز مولویوں کی ڈراؤنی باتوں نے باندھ رکھا ہے ۔اب تو حالت یہ ہے کہ ہمیں اپنے مرحومین کی قبور تک کی یاد نہیں آتی ۔حالانکہ انکی قبریںبنانا اور زمین سے کچھ اونچی رکھنا ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں ان سے منہ نہیں موڑنا ،ایک ربط رکھنا ہے ۔اور کیوں نہ ہواولاد کے لئے تو والدین کی آخری آرام گاہ، دعا کی قبولیت کامقام ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں جب تک مخلوق کے احسان کا شکریہ ادا نہ کیا جائے وہ بے نیاز ذات بھی اپنے بندے کا شکر قبول نہیں کرتا۔والدین کے ساتھ اولاد کے حسنِ سلوک کا تقاضا ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ان کو یاد رکھا جائے ۔دعا مغفرت کی جائے ،اور ان کے دوستوں ،رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔

خدمت ایک ایسی عبادت ہے جس کی قضا نہیں ہوتی ۔گویا اس کی ادائیگی میں کوتاہی ایک بہت بڑی سعادت سے محرومی ہے ۔بابا(سردار کاظم علی حیدری مرحوم و مغفور) کے حوالے سے اگر صرف ایک پہلو پر لکھنا پڑے تو میں اسی بات کو ترجیح دونگا کہ خدمت خلق ان کے کردار کا سب سے اہم حوالہ تھا (دوسرا حوالہ امن پسندی اوراس حوالے سے عملی جدوجہد ) ۔میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عبادت ان سے کبھی قضا نہیں ہوئی۔کینسر جیسے موزی مرض سے لڑائی کے دوران بھی نہیں ۔شوکت خانم سے واپسی پروہ اپنے آبائی شہر علی پور چلے آتے۔لاہور میں اپنے بیٹے عرفان علی حیدری کے گھر پررک کرڈاکٹر سے اگلی ملاقات کا انتظار کرنے کی بجائے واپسی کو ترجیح دیتے کہ وہاں ان کے ملنے والے ان کی راہ تک رہے ہوتے ۔اور پھر اپنی اولاد کے روکنے کے باوجود ان کے مسائل کے حل کے لئے نکل کھڑے ہوتے۔

کاش وہ اپنی فکر کر لیتے۔۔۔آج سے دوسال قبل انہیں گلے کی تکلیف ہوئی تو حسب ِ معمول ادھر ادھر سے ہلکا پھلکا علاج کرالیا۔اور تکلیف رفع ہوئی تو سمجھے کہ معاملہ ختم ہوا ۔پرافسوس معاملہ اس کے برعکس تھا۔بیماری رخصت نہ ہوئی وہ خودرخصت ہو گئے ۔وہ بیماری کی پہلی اسٹیج تھی، اگر اس وقت علاج ہوجاتا تو شاید بات اتنی نہ بڑھتی،مگر ہونی کو کوئی کب ٹال سکتا ہے۔وہ ہو کے رہتی ہے کبھی کسی کی نہیں مانتی ۔چاروناچار سب کواسکی مانناپڑتی ہے۔شوگرکا مرض کیا کم تھا کہ ڈھلتی ہوئی عمر میں کینسر نے بھی ستم ڈھانا شروع کر دیا ۔پچھلی گرمیوں میں انہیں ایک ناکردہ جرم کی پاداش میںکئی ماہ جیل میں رہنا پڑا ۔وہ جو اے سی کے بغیر رہ نہیں پاتے تھے ،جانے جیل کے حبس زدہ ماحول میں کیسے رہ پائے ہوں گے؟کیا قیامت ہے کہ” امن کے سفیر ”(مظفر گڑھ کے ضلع کونسل ہال میں ،ضلعی امن کمیٹی کے زیرِ تحت تعزیتی ریفریس میں انہیں سب نے اسی نام سے یاد کیا اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے خراجِ تحسین پیش کیا )کو اپنی عمر کے آخری ایام جیل میں گزارنے پڑے۔

وہاں سے لوٹے تو بیماری اپنی شدت کو پہنچ چکی تھی۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف 6ماہ میں ہی وہ ایک آدام زاد سے زندہ یاد میں بدل کر رہ گئے۔ماہ ربیع الاول میںمیلاد النبی کے سلسلہ میں انکا خطاب آخری ثابت ہوا۔وہ جسے ہم نے دریا کی طرح رواں،بادلوں کی گرجتا ،ہوا کی طرح متحرک،بارش کی طرح برستا ،بلبل کی طرح چہکتا، خوشبو کی طرح پھیلتااور گلاب کی طرح کھلا اور بکھرا ہوا دیکھا تھا آج اپنے پیچھے مٹی کی ایک ڈھیری چھوڑ گیا ہے ۔اسے دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔کب بھلا سکتا ہوں یہ بات کہ بابا کی حالت بہت نازک تھی تو ہاتھ اس بے نیاز رب کے حضور پھیلا دئیے تھے ۔ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور آنکھ سے بہتے آنسو ؤں میں بابا کی زندگی کی بھیک مانگی تھی۔ دعاکے بعد اپنے اند ر سکون کی کیفیت دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسا اطمینان ہے ؟پھر رفتہ رفتہ ایسی خبریں آتی رہیں جو حوصلہ توڑ دیا کرتی ہیں لیکن دل تھا کہ اس کا اطمینان برقرار رہا۔اور پھر وہ ساعت بھی آن پہنچی جب چھوٹے بھائی عرفان کی آواز سیل فون سے نکل کر سماعت سے ٹکرائی ” صفدر آ ونج یتیم تھی گے سے ”
تب بھی یہ اطمینا ن برقرار رہا تو سمجھ میں آیا کہ اپنی جس کیفیت کو میں ”بے حسی اور قساوت قلبی ”سمجھاتھا وہ بے حسی نہیں تھی صبر کی دولت تھی جو مالکِ کل نے اس دعا کے نتیجے میں میرے قلب پر اتاری تھی ۔لوگ گلے لگ کر مجھے” مکانڑ” دے رہے اور میں بنجر آنکھیں لئے ان کو روتا اور بلکتا دیکھے جاتا تھا ۔ان کا رونا مجھے گلے لگا لگاتسلی دینا یہ بتاتاتھا کہ جیسے میرا کوئی بہت بڑا نقصان ہوگیا ہو۔۔۔۔اور میں جو ہلکی سی بات پر آنسو بہادینے کا عادی تھا آج کسی بت کی طرح جذبات سے عاری تھا۔غم بھی عجیب شے ہے کبھی پتھر کو موم کر دیتا ہے تو کبھی موم کو پتھر ۔صوفیہ بیدار سچ ہی تو کہتی ہیں کہ محبت تو اپنے اختتام تک کھلتی ہی نہیں ۔یہ کہانی ختم کہاں ہوئی ہے یہ کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔۔۔۔۔

آج ہی میں نے کلاس ہفتم کے شاگردوں سے ایک سوال کیا کہ محبت کیا ہوتی ہے تو حسن نے بے ساختہ کہا ”سر محبت وہ ہوتی ہے جو دوسروں سے کی جائے”۔میں حیرت زدہ رہ گیا۔ایک دس گیارہ سالہ بچے کا ایسا شاندار جواب ۔۔۔میں واقعی عش عش کر اٹھا ۔(بچے کا جواب فطری سا لگا کہ قدرت بچوں کومحبت کا ہی تو ہنر دے کر بھیجتی ہے ۔فقط اپنی ذات ہی سے نہیں اپنے اردگرد موجود ہر چیز سے محبت ۔یہ تو ہم ہی ہیں کہ بچوں میں نفرت کے بیج بو دیا کرتے ہیں ۔۔ )کتنی معنویت ہے اس جواب میں کہ محبت ہوتی ہی ہے وہ ہے جو دوسروں سے کی جائے کہ خود سے محبت تو جانور بھی کر تے ہیں ۔انسان جانوروں سے خود کو ممتاز رکھناچاہتا ہے تو اسے دوسروں سے محبت کرنا ہوگی۔محبت کے اس حسین سلسلے کو فروغ دینا ہوگا ۔

بابا نے اسے بہت فروغ دیا تھا اور میں نے دیکھا کہ ان کی وفات پر لوگ ان کے لواحقین سے بھی زیادہ رو رہے تھے ۔آنسو کا نذرانہ پیش کر رہے تھے ۔یہ آنسو اسی محبت کے پھیلاؤ کا واضح عکس تھے جو میرے بابا مخلوق ِ خدا سے کیا کرتے تھے۔ان کے تعزیتی ریفرنس میں انکی تصویر کے ساتھ لکھا ہوا یہ شعر کتنا بھلا لگا ۔جیسے یہ صرف انہی کے لئے کہا گیا ہو
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر : صفدر علی حیدری