موجودہ دور میں کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دوسروں کے تعاون کے بغیر اپنے تمام معاملات کوانجام دے سکے۔جو شخص یہ کہتا ہے مجھے کسی کی مددکی ضرورت نہیں وہ جھوٹا شخص ہے۔ ہر شخص اپنے تمام کام خود نہیں کر سکتا۔ کپڑے سلوانے کے لیے اسے درزی، کپڑے دھلوانے اوراستری کرانے کے لیے دھوبی، علاج کرانے کے لیے ڈاکٹریاحکیم، سفرکرنے کے لیے ٹرانسپورٹ، کھاناکھانے کے لیے ہوٹل، قانونی معاملات کوسلجھانے اورانصاف کے حصول کے لیے عدالت، وکیل اورعدالتی عملہ، زمینوں کے معاملات کے لیے پٹواری، قانون گو، تحصیل دار، مذہبی مسائل پوچھنے اورسیکھنے کے لیے علماء کرام، کسی سے بات کرنے، رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون، پی ٹی سی ایل فون ،خط، ای میل، دینی علم حاصل کرنے کے لیے دینی مدارس، دنیاوی علم حاصل کرنے کے لیے سکول، کالج ، یونیورسٹی، رہائش کے لیے مکان، مکان کی تعمیرکے لیے مستری مزدور، گھر،دکان، دفترمیں بجلی کاکام کرانے کے لیے الیکٹریشن، ملک اور دنیابھرکے حالات سے باخبررہنے کے لیے ریڈیو، ٹی وی، اخبارات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کام کوئی بھی شخص ازخود نہیںکرسکتا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کے لیے انسان کودوسرے انسان کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے وہ اس تعاون کے بدلے میں تعاون کرنے والے کامالی تعاون کردیتا ہے۔
جب ایک انسان اپنے سب کام خودنہیںکرسکتا اس کوکسی نہ کسی کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے توایک ملک کیسے اپنے تمام معاملات خودچلاسکتاہے۔ جس طرح ہرشخص کوکسی نہ کسی کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہرملک کوبھی کسی نہ کسی ملک کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ہرانسان کااپنا اختیارہوتا ہے کہ وہ جس سے چاہے تعاون حاصل کرے اورجس سے نہ چاہے تعاون حاصل نہ کرے۔ اسی طرح ہرملک کابھی اپنااختیارہے وہ کسی ملک سے تعاون حاصل کرے اور کسی ملک سے تعاون حاصل نہ کرے۔ہرانسان کواپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسرے انسانوں سے تعلقات قائم رکھناپڑتے ہیں اسی طرح ہرملک کوبھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم رکھنے پڑتے ہیں۔ ہرانسان جس سے چاہے تعلقات قائم کرے اورجس سے چاہے ختم کرے اسی طرح ہرملک جس ملک سے چاہے تعلقات قائم کرے اورجس ملک سے چاہے تعلقات قائم نہ کرے۔ جس طرح انسانوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی جاری رہتی ہے اسی طرح ممالک کے درمیان تعلقات میں بھی تبدیلی جاری رہتی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات کواس ملک کی خارجہ پالیسی کہتے ہیں۔
پاکستان کوبھی اپنے معاملات کے لیے دوسرے ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے اوردوسرے ممالک کوپاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دنیاکے کئی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم ہیں اسے ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کہتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہردورمیں یکساں نہیں رہی۔ کسی دورمیں پاکستان اورامریکاکے تعلقات گہرے ہوتے ہیں توکسی دورمیںبرائے نام۔ کسی دورمیں حکومت نے کئی معاملات میںامریکاپرانحصارکیا اورکسی دورمیں اس پرانحصارنہیںکیاگیا۔ ہردورحکومت میں امریکاکے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت کے تعلقات قائم رہے ہیں اورآئندہ بھی رہیں گے۔ جس طرح آپ اس تحریر میں پڑھ آئے ہیں کہ ہرملک کایہ اختیارہوتاہے وہ جس ملک سے چاہے تعلقات قائم کرے۔
اسی طرح پاکستان بھی یہ اختیاررکھتا ہے جس ملک سے چاہے تعلقات قائم کرے۔ پاکستان اورامریکاکے تعلقات میں تو اتارچڑھائوجاری رہتاہے کیوں کہ دونوں ممالک کے تعلقات مفادات سے وابستہ ہیں۔ جب امریکاکے مفادات پاکستان سے جڑے ہوتے ہیں تودونوں ممالک کے تعلقات اچھے دکھائی دیتے ہیں اورجب امریکاکوپاکستان کی ضرورت نہیںہوتی تویہ تعلقات برائے نام رہ جاتے ہیں۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کئی دہائیوں تک معطل رہے پھربحال ہوگئے۔ دنیامیں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مسلسل قائم رہے ۔ ان تعلقات میں کبھی دراڑ نہیں آئی۔ یہ تعلقات کبھی کمزورنہیںہوئے۔ امریکاکے ساتھ تعلقات میں ہمیشہ امریکانے ہی مفاداٹھایا پاکستان کوکوئی فائدہ نہیںہوا۔ جب کہ دنیامیں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جن سے ہردورمیںپاکستان کوفائدہ حاصل ہوا۔ امریکانے کسی بھی مشکل وقت میں پاکستان کی مددنہیں کی بلکہ پاکستان کے لیے مشکل وقت کواپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔
جب کہ دنیامیں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جنہوںنے ہرمشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ دوست وہی ہوتاہے جومشکل وقت میںکام آئے۔ پاکستان بھی ان ممالک سے اپنے تعلقات مضبوط رکھناچاہتا ہے جن ممالک نے ہرمشکل وقت میں پاکستان کی مددکی۔اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ خارجہ پالیسی کی ہر بار تبدیلی میں امریکاپرانحصارپہلے سے مزیدکم اوردیگردوست ممالک پرزیادہ کردیاجاتاہے۔ امریکاپرانحصارکم کرنے اوردیگردوست ممالک پرانحصارزیادہ کرنے کا سلسلہ پیپلزپارٹی کے دورحکومت سے جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں امریکاسے تعلقات کم کرنے کاسلسلہ شروع ہوا۔ اس دورمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سہولت کے لیے دیے گئے ہوائی اڈے امریکاسے خالی کرادیے گئے۔ اس وقت کے صدرآصف زرداری نے کئی دہائیوںبعدسربراہ مملکت کی حیثیت سے روس کاپہلادورہ کیا۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کاآغازتھا جواب تک جاری ہے۔سعودی عرب، چین، ترکی سمیت کئی ممالک ایسے ہیں جنہوںنے ہرمشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ بھرپورتعاون کیا۔
جب بے نظیربھٹو(شہید) کے دورحکومت میں ایف سولہ طیاروں کی قیمت وصول کرنے کے بعد بھی امریکانے پاکستان کویہ طیارے نہ دیے توپاکستان نے چین کے تعاون سے ایف سولہ سے کہیں زیادہ طاقتور جے ایف تھنڈربنالیا۔ جب ایٹمی دھماکوںکی پاداش میں امریکانے پاکستان پراقتصادی پابندیاں عائدکیں اس وقت بھی سعودی عرب، چین اورکئی دیگردوست ممالک نے پاکستان کی مددکی۔مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں سعودی عرب نے چونتیس ممالک کافوجی اتحادبنایا اس اتحادکی سربراہی پاکستان کے حصے میں آئی۔ جنرل راحیل شریف اس فوجی اتحادکے سربراہ ہیں۔ اسی دورحکومت میں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کامعاہدہ ہوا، جس پرکام جاری ہے بلکہ اس میںمزیدتوسیع بھی کی جارہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ہی بجلی کے بحران پرقابوپانے کے لیے بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے چین کے تعاون سے متعددمنصوبے شروع کیے گئے جن میں سے کئی مکمل ہو کر بجلی فراہم کررہے ہیں۔ اسی دورحکومت میں پاکستان اورترکی بھی ایک دوسرے کے مزیدقریب ہوئے۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی خارجہ پالیسی کی اسی سمت کوجاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت جب کہ پاکستان کومالی مشکلات کاسامنا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے حکومت پاکستان نے رابطہ کیاہواہے۔ آئی ایم ایف نے ایسی شرائط لگادی ہیں جن کاپوراکرناپاکستان کے لیے مشکل ہے۔ یوں آئی ایم ایف پاکستان کی مشکلات کم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کاسبب بن رہا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لے توپاکستان کوآئی ایم ایف قرضہ دے دے گا، اس کی طرف سے پاکستان پرمزیدسخت شرائط بھی لگائی جاسکتی ہیں اسی لیے پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کامیاب نہیںہوسکے۔اسی لیے غیراعلانیہ طور پر آصف زرداری، نوازشریف ، عمران خان متفق ہیں کہ امریکاپرانحصارکم سے کم کیاجائے۔
عمران خان بھی اسی خارجہ پالیسی پرعمل کررہے ہیں جس میں امریکا پر انحصارکم سے کم ہے۔ بلکہ عمران خان کی خارجہ پالیسی تویہ ہے کہ امریکااوراس کے ماتحت مالیاتی اداروںپرانحصارکرناہی نہ پڑے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے بھی آصف زرداری اورنوازشریف کی طرح امریکاکی بجائے دیگردوست ممالک کے ساتھ تعلقات کوترجیح دی۔ عمران خان کی یہی خارجہ پالیسی جاری رہی تو موجودہ دورحکومت میں ہی پاکستان کو امریکا پرانحصارکی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایک طرف پاکستان اورآئی ایم ایف کے سخت شرائط کی وجہ سے مذاکرات ابھی تک کامیاب نہیںہوئے ۔ دوسری طرف پاکستان کے دوست ممالک نے پاکستان کے ساتھ اس مشکل وقت میں تعاون جاری رکھاہواہے۔ سعودی عرب نے تین ارب ڈالردینے کااعلان کیا۔جس میں سے دوارب ڈالرپاکستان کومل چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک قومی اخبار کی خبرکے مطابق سعودی ولی عہدآئندہ ماہ پاکستان کادورہ کریں گے ۔جس میں پاکستان میں سعودی عرب کی طرف سے پندرہ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کااعلان متوقع ہے۔ پاکستان کوسعودی عرب تیل بھی فراہم کررہاہے۔
چین نے پاکستان کودوارب ڈالرامداداورسی پیک کے لیے مزیدتین ارب ڈالردینے کااعلان کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان اورچین میں تعاون کے پندرہ معاہدے ہوئے۔ عمران خان کی خارجہ پالیسی نہ صرف امریکاپرانحصارکم سے کم کرناہے بلکہ امریکی ڈالرپربھی انحصارکم سے کم کرناہے۔ پاکستان اورچین نے باہمی تجارت امریکی ڈالرنہیں اپنی کرنسی میںکرنے کااعلان بھی کررکھا ہے۔ چین پاکستان کی معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے مددکرے گا، دفاعی تعاون بڑھایا جائے گا، دونوں ممالک رابطوںکومربوط ،سی پیک کودرپیش خطرات کابھرپوردفاع کریں گے، غربت کے خاتمے کے لیے چین پاکستان میںپراجیکٹس کا آغاز کرے گا، چین پاکستا ن کوسمال انڈسٹری یونٹس لگانے کے لیے مہارت بھی فراہم کرے گا، دونوںممالک نے تجارتی سرگرمیوں کے لیے باہمی کرنسی کاحجم دوگنا کر دیا ۔اسلام کاتشخص خراب کرنے والوں کے خلاف مل کرکام کرنے کے لیے پاکستان اورترکی میں اتفاق ہواہے۔ترکی نے مسئلہ کشمیراورنیوکلیئرسپلائرگروپ کی رکنیت کے لیے پاکستان کی حمایت کااعلان کیا،عمران خان نے کہا کہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیرکے لیے ترک کمپنیاں پاکستان آئیں ،ہم داعش کے خلاف پاکستان کے ساتھ ہیں۔پاکستان اورترکی کاباہمی تعاون کوتمام شعبوں تک وسعت دینے پربھی اتفاق ہواہے۔
پاکستان اورمتحدہ عرب امارات میں منی انڈرنگ روکنے پراتفاق ہواہے۔ متحدہ عرب امارات پاکستان کوبیلنس آف پیمنٹ کے لیے تین ارب ڈالردے گا، تجارت میں اضافہ کے لیے ٹاسک فور س بنانے کا فیصلہ ،پاکستان ، متحدہ عرب امارات کے درمیان اقتصادی شراکت مضبوط کرنے ،دفاعی تعاون کاعزم بھی کیاگیا ہے۔عمران خان اورشیخ محمدبن زایدکے درمیان ون آن ون ملاقات میں باہمی اموراورپاکستان، دبئی مشترکہ وزارتی کمیشن پربھی تبادلہ خیال ہوا۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری میں دل چسپی کااظہاربھی کیا۔پاکستان میں پولیوکے خاتمہ کے لیے حمایت پروزیراعظم پاکستان عمران خان نے ولی عہدابوظہبی سے اظہارتشکر کیا۔ پاکستان اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان آئل ریفائنریز سمیت تمام معاملات پربات چیت مکمل ہوگئی۔ سعودی عرب، چین، ترکی ،متحدہ امارات کے ساتھ موجودہ حکومت کے تعلقات یہ واضح کررہے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت اورنوعیت کیاہوگی۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کی یہی خارجہ پالیسی جاری رکھی تونہ صرف امریکا اوراس کے ماتحت مالیاتی اداروںپرانحصارکی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں بھی شامل ہوجائے گا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوںکوبھی اس خارجہ پالیسی میں موجودہ حکومت کاساتھ دینا چاہیے۔