آسیہ بی بی بریت کیخلاف احتجاج، توڑ پھوڑ: متاثرین کو ایک ماہ میں ادائیگیوں کا حکم

Protest

Protest

لاہور (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بعد مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے دوران ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے متاثرین کو ایک ماہ میں ادائیگیاں کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے لاہور رجسٹری میں آسیہ مسیح کی رہائی کے بعد ہنگاموں سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ نقصانات کا تخمینہ 262 ملین لگایا گیا ہے اور کابینہ نے اس تخمینے کی منظوری دے دی ہے۔

جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک ادائیگی کا مکمل پلان نہیں دیا گیا، اگر عدالت حکم نہ دیتی تو یہ پلان بھی نہ آتا۔

محکمہ داخلہ کے سیکشن آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ اسی ماہ ادائیگیاں کر دیں گے۔

سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک ماہ میں متاثرین کو ادائیگیاں کرنے کا حکم دے دیا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ایک ماہ میں مکمل ادائیگیاں کرکے عملدرآمد رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

واضح رہے کہ توہین رسالت کے جرم میں ماتحت عدالتوں سے سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 31 اکتوبر کو خاتون کی رہائی کے احکامات جاری کیے جس کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔

احتجاج کے دوران کئی شہریوں میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی تھی، 2 نومبر کی شب حکومت اور مظاہرین میں 5 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد ملک بھر میں دھرنے ختم کردیئے گئے تھے۔

دھرنے ختم کرانے کے بعد حکومت نے املاک جلانے اور پر تشدد واقعات میں ملوث شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے ملک بھر کے دھرنوں کے دوران توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں ملوث 1800 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ سیکڑوں مقدمات بھی درج کیے گئے۔

وزارت داخلہ نے بھی شرپسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جانے کی تصدیق کی تھی، بعدازاں وفاقی وزرات داخلہ نے توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کی گرفتاریاں التواء میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور تمام صوبائی حکومتوں کو مزید گرفتاریوں سے روک دیا تھا۔

دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 6 نومبر 2018 کو توہین رسالت کے کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے رد عمل میں توڑ پھوڑ کا ازخود نوٹس لیا تھا۔