محتاجوں ، غریبوں ،یتیموں ، اور ضرورت مندوں کی مدد ، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کی بنیادی درس ہے دوسروں کی مدد کرنے ، ان کے ساتھ تعاون کرنے ان کے لئے روزمرہ ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین اسلام نے کارثواب اور اپنے رب کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا۔
ہمارے کچھ صاحب حثیت لوگ مالدار طبقہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال ودولت دی ہیں غریب طبقے کے ساتھ میل جل کرنا ، ان کی دعوت پر جانا اس کی بیمار پرسی کرنا ان کے مجلس میں جانا عار سمجھتے ہیں اور غریب طبقے کو غربت کی وجہ سے طنز کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بجائے ان کی مدد کرنے الٹا اس کا طنز اڑاتے ہیں ۔
غریب کی غربت سے اس لئے بھی نفرت کا اظہار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قربت دولت سے نہیں اچھے اعمال سے حاصل ہوتی ہے دولت تو نمرود فرعون قارون کے پاس بھی بہت تھا لیکن اللہ تعالی نے مال دولت سمیت دنیا کے لئے نشان عبرت بنایا ۔
غریب طبقے کو دین اسلام نے جو اعلیٰ مقام دیا کوئی بیان کرنے سے قاصر ہے غربت تو غریبوں کے لئے آزمائش ہے اور مالداروں کے لئے امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اپنے مال میں سے غریبوں پر کتنا خرچ کرتے ہیں غریب تو اللہ کے ہاں وہ مقدس طبقہ ہیں جنہیں اللہ کے رسول ۖ نے جنت کی خوشخبری سنائی ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ غریب طبقہ امراء سے پانچ سوسال پہلے جنت میں داخل ہوں گے کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ۖ اس کی کیا وجہ ہوگی آپ ۖ نے فرمایا کہ امراء کا حساب کتاب زیادہ ہوگا ۔
آپ ۖ کی سیرت مطہرہ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ۖ نے ہمیشہ دنیا کی مال دولت ، عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی بجائے غریب جیسی زندگی یعنی سادہ زندگی گزارنا پسند فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے محبوب ۖ اگر آپ چاہے تو میں آپ کے لئے احد کا پہاڑ سونے کا بنادوں لیکن آپ ۖ نے پسند نہیں فرمایا ۔
اسی طرح کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں اور اپنے پیارے نبی ۖ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب طبقے سے ہمارے پیارے نبی ۖ کی کتنی محبت تھی محبت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ۖ نے بے سروسامان کی زندگی پسند فرمائی لیکن آج غریب کی طرح رہنا تو دور کی بات غریب کی مدد کرنا بھی ہم گوارہ نہیں کرتے ۔
ہمارے پیارے نبی ۖ کی سیرت سے یہ تعلیم بھی ملتی ہیں کہ کسی غریب سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی مدد کریں اگروہ مقروض ہو تو اس کی قرض کی ادائیگی میں تعاون کریں بیمار ہو تو بیمار پرسی کریں غرض ہمیں یہ سب ملتا ہے کہ غریب طبقے سے ہر حالت میں اچھائی کریں ۔
لمحہ فکریہ کی بات یہ ہے کہ ہم غریب طبقے کی مشکلات وتکالیف محسوس ہی نہیں کرتے غریب اپنی غربت کی وجہ سے غیر شرشرعی غیرقانونی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں غریب کے بچے بجائے تعلیم حاصل کرنے چوری ، ڈکیتی ، کرنے منشیات اسمگل کرنے یا دیگر گناہوں کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں لیکن ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ۔
لیکن یاد رکھیں ! کہ قیامت کے دن غریبوں کے بارے میں ضرور اللہ تعالیٰ پوچھیں گے اور خدانخواستہ اگر غریب کوئی مجبوری کی وجہ سے کوئی جرم کیا تو ہم اس جرم کے اس غریب کے ساتھ برابر کے شریک ہیں کیونکہ غریب طبقے کے لئے غربت ایک امتحان ہے ایک آزمائش ہے بلکہ ہمیں ان کا ساتھ دیکر ان سے ہمدردی پیدا کرنی ہے ان کو ہمت و دلاسہ دینا ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہیں غربت کے معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کینہ اور بعض پروان چڑھتا ہے بسااوقات ناامید غریب شخص پورے معاشرے پر اپنا بوجھ ڈال دیتا ہے یہاں پر اہل علم دانشوروں اور صاحب حیثیت افراد کو اپنا کردار پیش کرا چاہیے کہ وہ اجر پانے ، اور معاشرے کو غربت کے منفی اثرات سے پاک کرنے کیلئے غربت کے خاتمے پر خلوص دل کیساتھ کام کریں چنانچہ غریب لوگوں کیلئے ملازمتیں پیدا کریں ، انہیں اپنی کمپنیوں ، کارخانوں میں کام کا موقع دیں ، ان کی صلاحتیوں اور ہنرمندی میں مزید اضافہ کریں ، اور انکے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کریں ۔
آج اگر غریب طبقے کی حالت پر غور کریں توغریب کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک ہورہا ہے ہمارے ملک کے حکمران بھی اس ناروا سلوک کرنے میں برابر شریک ہے کیونکہ حکومت کو غریب طبقے کے لئے آسانی پیدا کرنے انہیں ملازمتیں دینے اس کو رہنے کے لئے جگہ مہیا کرنے اور ان کے لئے اشیاء خوردنوش و دیگر روزمرہ کی چیزوں کو سستی دام پر دینا چاہئے ۔
غریب طبقے کے بچوں کی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اگر غریب طبقے کی بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے تو خدانخواستہ کل اس ملک قوم و معاشرے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کے لئے علاج کی سہولت بھی فراہم کی جائے ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں غریب کے لئے سہولت نام کی کوئی چیز میسر نہیں ادویات کی سہولت نہ بیڈ کی سہولت نہ صاف پانی کی سہولت ہے۔
اسی طرح غریب طبقے کی حالت پر صرف حکومت کو ذمّہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے صاحب حیثیت حضرات موجود ہیں جو خود کو صرف اپنی دولت پر فخر کرنے تک محدود کئے ہوئے ہیں حالانکہ ان سے بھی مرنے کے بعد غریب کی مدد نہ کرنے کے بارے میں پوچھا جائے گا اگر ہر صاحب حیثیت اپنی طرف سے اپنے معاشرے غریب کی مدد کرنا شروع کریں تو پھیر بھی غریب کی حالت میں بہتری آسکتی ہے لیکن صاحب حیثیت حضرات میں بھی کچھ لوگ غریب طبقے کے ساتھ ایک ظالم جیسا برتائو کرتے ہیں جن کی فیکٹریاں ہیں تو غریب کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر آدھی تنخواہ پر رکھ لیتے ہیں اور وہ تنخواہ بھی اپنے وقت پر دینے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
جن کے اپنے ہسپتال ہیں وہ منہ مانگے پیسوں پر دوائیاں بیچنے اور مزید اس کے علاوہ مختلف ذریعے سے غریبوں کو لوٹتے ہیں اسی طرح صاحب حیثیت مالک مکان ، دکاندار، اسکول کی انتظامیہ ڈاکٹر ، وغیرہ بھی غریب طبقوں سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہیں۔