پاکستان میں انسانوں کے اسمگلر ایف آئی اے کے نشانے پر

Pakistani Refugees

Pakistani Refugees

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وفاقی تفتیشی ادارے نے ریڈ بک کا آٹھواں ایڈیشن جاری کر دیا ہے جس میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث مزید کئی افراد کے نام بھی شامل ہیں۔ ادارے کا دعوی ہے کہ اس پیش رفت سے اسمگلروں کو گرفتار کرنے میں آسانی ہو گی۔

پاکستانی ایف آئی اے نے انسانوں کی اسمگلنگ ملوث انتیس مزید افراد کے نام ریڈ بک میں شامل کر لیے ہیں۔ پہلی بار چار خواتین کے نام بھی اسمگلروں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان خواتین میں دو کا تعلق پنجاب سے، ایک کا اسلام آباد سے ہے اور ایک کراچی سے ہے۔ اس جرم میں ملوث ایسے افراد جو قانون کی گرفت سے باہر ہیں، ان کی تعداد اب ایک سو بارہ ہوگئی ہے، جن کے نام اس بک میں درج ہیں۔

ایف آئی اے پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل ظفر قریشی کا دعوی ہے کہ اس سے ان مفرور افراد کی گرفتاری میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ریڈ بک کو ایف آئی اے کے تمام دفاتر میں رکھا جاتا ہے اور اس میں نام چھپنے کے بعد ایجنسی کے تمام حکام ان ملزمان کے ناموں سے واقف ہو جاتے ہیں۔ تو یہ ایک مثبت قدم ہے اور اس سے ملزمان کو پکڑنے میں آسانی ہوگیے۔

بوسنیا کی پولیس نے تقریبا ڈھائی سو تارکین وطن کی اپنے پڑوسی اور یورپی یونین کے رکن ملک کروشیا کی سرحد تک رسائی روک دی، جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں اور حکام کے مابین تصادم کی اطلاعات ہیں۔ (

تاہم پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے غلام شبیر، جو خود بھی انسانوں کی اسمگلنگ کا شکار ہو چکے ہیں، ان دعووں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ایف آئی اے اس طرح کے دعوے ہر سال کرتی ہے لیکن ایجنٹس آج بھی گھوم رہے ہیں۔ منڈی بہاالدین، گجرات، گجرانوالہ، کھاریاں اور ملک کے کئی دیگر علاقوں میں یہ کام آج بھی جاری ہے۔ یہاں تک کے مجھے لے کر جانے والا ایجنٹ بھی آزادی سے گھوم رہا ہے۔ اس نے اپنی شناخت تبدیل کی ہوئی ہے۔ زیادہ تر ایجنٹ اور اس جرم میں ملوث دیگر افراد ایسا ہی کرتے ہیں۔

غلام شبیر سن 2015 میں انسانوں کے اسمگلروں کے ہتھے چڑھے تھے۔ وہ کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچے، جہاں انہوں نے اٹھارہ مہینے کام کیا اور پھر پچھلے سال واپس پاکستان آ گئے۔ ان کا دعوی ہے کہ اس کام کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایف آئی اے والے رشوت لے کر لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس جرم میں بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں۔ پاکستان سے باہر ترکی، ایران اور کئی دوسرے ممالک کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں۔ اسے ختم کرنا آسان نہیں۔

ایف آئی اے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ کاروبار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت نے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف سن 2009 سے لے کر اب تک مختلف طرح سے قانون سازی بھی کی ہے اور مجرمان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے ہیں لیکن پھر بھی یہ جرم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

ایف آئی اے پنجاب کے ترجمان الطاف گوہر نے انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، سن 2018 میں لاہور سے 986، گجرانوالہ میں 1159، گجرات میں 78، فیصل آباد میں 482 اور ملتان میں 373 ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر سے پہلے شکایت ملنے پر تفتیش کی جاتی ہے۔

لاہور میں اس طرح کی 1781 انکوائریاں ہوئیں۔ گجرانوالہ میں سترہ سو پچانوے، گجرات میں ایک سو چودہ، فیصل آباد میں چودہ سو پینتیس اور ملتان میں ستائیس سو اکہتر انکوائریاں ہوئیں۔ پانچ سو ستاسی اشتہاری ملزمان کو سن 2018 میں گرفتار کیا گیا جب کہ پچانوے ایسے افراد بھی گرفتار کئے گئے، جو ضمانت کے بعد مقدمات کی پیروی نہیں کر رہے تھے۔

ان کا دعوی ہے کہ اس جرم کو روکنے کے لیے لاور ہی میں مختلف مجرمان پر دو کروڑ، پچھتر لاکھ اور چھیتر ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ جبکہ ایک کروڑ کا گجرانوالہ میں، اکیاون لاکھ کا فیصل آباد اور پینتالیس لاکھ کا ملتان میں۔

یہ جاننے کے لیے کہ پورے پاکستان سے کتنے افراد کو اس طرح اسمگل کیا جاتا ہے ایف آئی اے کے کئی افسران سے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا لیکن وہ معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا دعوی ہے کہ حکومت اس بھیانک جرم کو روکنے کے لیے پر عزم ہے۔

پارٹی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت اس محاذ پر مختلف حوالوں سے کام کر رہی ہے لیکن غلام شبیر اور ظفر قریشی کے خیال میں ایسا ہونا آسان نہیں ہے۔

ظفر قریشی کا کہنا ہے جب تک عدالت اس معاملے پر نوٹس نہیں لے گی، حکومت کوئی کام نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا، اس کاروبار میں کئی نامی گرامی سیاست دان بھی ملوث ہیں۔