گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستانی سیاسی پارہ 106 ڈیگری پر پہنچ گیا ہے، جس کی سب بڑی وجہ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سیاسی لڑائی ہی ہے۔ تحریک انصاف سندھ حکومت گرانے اور پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کے پیچھے ہاتھ دو کر پڑگئی ہے۔ اس وقت ملک سنگین مسائل کا شکار ہے اور ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچادکھانے میں مصروف عمل ہیں۔
پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو گرانے کی باتیں کررہی ہے تو تحریک انصاف سندھ میں گورنر راج کی ۔ کوئی مثبت اور تعمیری کام ایک سے ہوسکتا ہے نہ ہی دوسرے نے کرنا ہے، حکومتیں گرانے اور بچانے میں اس وقت ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مصروف عمل ہے جبکہ تیسری بڑی سیاسی جماعت اور ان کی قیادت اپنے خلاف کیسوں کی سماعت کے ساتھ حریف کو ٹف ٹائم دینے میں سر توڑ کوشش کررہی ہے۔
ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں (مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی،تحریک انصاف)اگر حب الوطنی، اخلاص ،دیانت داری، اپنی افرادی قوت اور ان کی صلاحیتوں فرداً فرداً کام لیں یا اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کریں تو ملک پاکستان کا کایا پلٹ سکتا ہے ، مگر ان تینوں جماعتوں نے ملک و قوم کی وسیع تر مفادات کو پس پشت ڈال کر اقتدار و مال اور مناصب کے حصول کو ہی اپنی اولین ترجیع قرار دے چکی ہے۔ ان تینوں جماعتوں سے خیر کی امید رکھنا بھی بے وقوفی کی زمرے میں آتا ہے۔ عوام پہلے ہی برسر اقتدار رہنے والی دو سیاسی جماعتوں(پیپلز پارٹی،ن لیگ) کے کرتوتوں سے تنگ تھی کہ اب تیسری سیاسی جماعت تحریک انصاف نے اقتدار میں آکر چند ہی ماہ میں عوام کو اتنا بیزار کردیا کہ اب عوام نے فوج و عدلیاں سے آس لگادی ہیں۔
عوام جنہوں نے فوج کے ساتھ عدلیہ سے آس لگائی تھی مگر اعلیٰ عدلیہ بھی عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اترپائی ، جس کی وجہ سے ملک بھر کی عوام میں شیدد بے چینی پائی جارہی ہے۔ ایک طرف سیاسی گرما گرمی دوسری جانب سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری و سزائیں، ایک جانب عدالتوں سے دہشت گردوں کی باعزت رہایاں تو دوسری جانب انہی عدالتوں کی جانب سے تجاویزات کے نام پر آپریشن کا حکم اور میر کراچی جو کل تک خود عدالتوں کی حکم کی دھجیاں اُڑیاں کرتا تھا وہ آج شاہ زیادہ شاہ کا وفادار بنا ہوا ہے۔ سیاست دانوں نے جس طرح سازشیں کیں اور ملک کو لوٹا کھسوٹا ، یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اربوں کھربوں کے قرضہ حاصل کرنے کے باوجود پاکستا ن نہ ترقی کرسکا نہ ہی یہاں کی عوام کو خوشحالی میسر ہوئی اور آج بھی پاکستان 1947 ء میں ہی کھڑا نظر آرہاہے۔
دو ہفتے قبل جب چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خبر دار اگر کسی نے سندھ میں گورنر راج لگا نے کی کوشش کی تو ہم ایک منٹ میں سب کچھ ختم کردینگے،چیف جسٹس کے اس ریمارکس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنمائوں میں خوشی دوڑ گئی ، جس کے بعد دو ماہ سے جاری سیاسی گرماگرمی میں تھوڑی نرمی و ٹھنڈک اور وقفہ آگیا، دوماہ سے پاکستان کی سیاست میں جو گرما گرمی ہے اس میں چنددنوں کا وقفہ ضرور آیا مگر جیسے ہی گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعت فواد چوہدری کراچی ائرپور ٹ پر اترے تو وہ وقفہ ختم ہوگیا، فواد چوہدری نے اترتے ہی وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفے کا مطالبہ کرڈالا، کیوں کیا؟ انہی کو پتہ ہوگا یا ان کو بھیجنے والوں کو ، لیکن بہانہ وہی کرپشن ہے ۔
ایک طرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہاتھ دو کر سندھ حکومت کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ، تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے نوآموز رہنما بلاول زرداری کہتے ہے کہ والد صاحب اجازت دیں تو ہم وفاقی حکومت کو ایک ہفتے میں ہی گھر بھیج سکتے ہیںاور ان کے رہنمائو ں کو جیل کی یاترہ بھی کراسکتے ہیں۔ بلاول زداری کا مزید کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو وفاق میں صرف چھ ووٹوں کی برتری حاصل ہے اور پنجاب میں اس سے بھی کم ہم جب چاہیئے انہیں پر خیبر پختون خواہ تک محدود کرسکتے ہیں۔ بلاول زرداری کی یہ چیخیں اس لیے نکل رہی ہیںکہ شریف خاندان کے بعد انہیں اپنا خاندان کرپشن میں پستہ ہوا نظر آرہاہے ، گر چہ تحریک انصاف نے آصف زرداری کے خلاف دائر نااہلی ریفرنس واپس لے لی مگر اب بھی وہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں۔
اس وقت تحریک انصاف کی وفاقی حکومت گورنر راج کی مانگ سے تو پیچھے ہٹ گئی ہے مگر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے استعفے کی مانگ اب بھی کررہی ہے ، وجہ و دلیل کے طور پر فواد چوہدری صاحب یہ بات پیش کرہے ہیں کہ بے نامی اکاونتس اور بعض دیگر مقدمات میں قائم علی شاہ کا نام جے آئی ٹی کے سامنے آیا ہے ، اس لیے وہ استعفیٰ دیں، اگر کیس میں نام سامنے آنے کے دلیل پر قائم علی شاہ سے استعفیٰ کی مانگ درست ہے تو سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان صاحب کو مستعفی ہوجانا چاہئے،کیونکہ ان کا نام بھی ہیلی کاپٹر کیس میں آیا تھا ۔
تحریک انصاف کے رہنمائوں بالخصوص فواد چوہدری کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ آصف علی زرداری کا کیس اس وقت عدالت میں ہے اوران کے ساتھ شریک ملزمان بھی عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں، نیب کو بھی عدالتی فیصلے کا انتظار ہے ۔ مگر فواد چوہدری اور ان کی جماعت والے جو کر رہے ہیں ، اسے میں فائدہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کو ہی ہوگا ، پیپلز پارٹی تعصب کی ایک نئی لہر اٹھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ، خصوصاً اس لیے بھی کہ تحریک انصاف کو پنجاب و خیبر پختون خواہ کی جماعت سمجھا جاتا ہے اور اس معرکے میں تحریک انصاف کے اتحادی اندورنی خانہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونگے ، تحریک انصاف کے ایک اتحادی متحدہ قومی مومنٹ جس کے مفادات زیادہ تر سندھ حکومت سے وابستہ ہے وہ تو پہلی ہی فرصت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات سیٹ کرلے گی ۔ رہی بات بلوچستان عوامی پارٹی کی تو مفاہمت کے شہنشاہ آصف علی زرداری کس طرح بی اے پی والوں کو زیر کریگایہ سب کو معلوم ہے ۔
اس وقت تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو سوچ سمجھ کر سیاست میں آگے قدم بڑا نہ ہوگا ، ایک طرف امریکاجو خطے سے واپسی کی جانب گامزن ہے ، دوسری جانب مہنگائی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ، اس پر ملک میں کرپشن کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہے ، جس میں تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں کے نام بھی سرفرست ہے ۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش ”سیاسی کشیدگی ” یا کچھ اور یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ، لیکن تب تک ملک کے معشیت کا پہیہ بیٹھ جا نے کا ڈر لگا رہے گا۔