اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی اکاونٹس کیس کا تحریری حکم جاری کر دیا جس کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے نام فی الحال ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن نے جعلی اکاؤنٹس کیس کا تحریری حکم لکھا جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جےآئی ٹی) رپورٹ، جمع شدہ مواد اور شواہد فوری طور پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے نام ای سی ایل سے فی الحال نکالنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
تحریری حکم کے مطابق جےآئی ٹی تحقیقات میں نیب کی معاونت کرےگی، نیب دو ماہ کے اندر تحقیقات کرکے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گا، بلاول، مرادعلی شاہ کیخلاف اگر ٹھوس شواہد ملتے ہیں تو وفاقی حکومت کو نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار ہوگا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نیب فاروق ایچ نائیک، ان کے بیٹے سے متعلق جے آئی ٹی کے مواد کا ازسرنو جائزہ لےگا اور اگر کیس نہیں بنتا تو فاروق نائیک اور ان کے بیٹے کے نام ای سی ایل سے ہٹا دیےجائیں۔
تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ نیب انور منصور کے بھائی سے متعلق جےآئی ٹی کے مواد کا جائزہ لے گا، انور منصور کے بھائی سے متعلق کیس نہیں بنتا تو نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے، تحقیقات مکمل ہونے تک نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔
تحریری حکم کے مطابق جےآئی ٹی زیر تفتیش مقدمات کی تفتیش کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی جبکہ نیب ہر 15 دن بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گا۔تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں نیب ریفرنس اسلام آباد اور پنڈی کی احتساب عدالتوں میں دائر کرے گا، جے آئی ٹی اپنا تمام ریکارڈ نیب اسلام آباد کو جمع کرائے گی۔
حکم نامے کے مطابق چیئرمین نیب ریفرنس کی تیاری کیلئے کسی اہل ڈی جی نیب کو تعینات کریں گے، چیئرمین نیب ریفرنسز حتمی نتیجے تک پہنچانے کیلئے ڈی جی نیب کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دیں گے۔
تحریری حکم کے مطابق نیب کی تحقیقاتی رپورٹ ہر 15 دن بعد عمل درآمد بینچ کے پاس جائے گی، چیف جسٹس آف پاکستان عمل درآمد بینچ تشکیل دیں گے، فی الحال اس مقدمے کونمٹایا جاتا ہے، ضرورت پڑنے پر معاملہ دوبارہ کھولا جاسکے گا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک، ان کے اہلخانہ اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے بھائی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیج دیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ نے آج جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی تھی جس کا اب تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ ‘نیب 2 ماہ کے اندر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ازسر نو تفتیش کرے’۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ‘نیب بلاول بھٹو زرداری اور مرادعلی شاہ سے آزادانہ تحقیقات کر سکتا ہے اور تحقیقات کے بعد اگر ریفرنس بنتا ہو تو اسے دائر کیا جائے’۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی اسی کیس میں گرفتار ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔
مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔
گذشتہ ماہ 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔