ججز کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے کام کیا: چیف جسٹس ثاقب نثار

Mian Saqib Nisar

Mian Saqib Nisar

اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس پاکستان کے منصب سے سبکدوش ہونے والے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انہوں نے آئین میں تعین کردہ حق زندگی، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ججز کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے کام کیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی مدت ملازمت پوری ہونے پر سپریم کورٹ میں ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں عدالتِ عظمیٰ کے 17 میں سے 16 جج صاحبان نے شرکت کی۔

فل کورٹ ریفرنس سے چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر بیٹھنے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی خطاب کیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ ریفرنس سے اپنے آخری خطاب میں عدالتِ عظمیٰ کے اہم فیصلوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے کئی معرکتہ الآراء فیصلے دیے، سب سے پہلے گلگت بلتستان کا فیصلہ ہے، دوسرا مسئلہ عدالت نے آبادی میں اضافے کا اٹھایا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھاکہ عدالت نے ملک میں پانی کی کمی کا نوٹس لیا اور پوری قوم نے پانی کے لیےعطیات دیے، پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ہر شخص کو عزت سے زندگی گزارنے کا حق دیا، نجی اسپتالوں کی فیسوں پر نوٹس لیا، خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنےکے معاملے کا نوٹس لیا، عدالت نے طیبہ سمیت گھروں میں کام کرنے والے بچوں کا بھی نوٹس لیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین میں تعین کردہ حق زندگی، تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ججز کے ضابطہ اخلاق کے اندر رہتے ہوئے کام کیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ججوں کا کام انتہائی مشکل ہے، عدلیہ میں کرپشن انصاف کا قتل ہے، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے ملک کے لیے کام کیا۔

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں نے جو عزت دی اس کو لوٹانے کی کوشش کی۔

واضح رہےکہ جسٹس میاں ثاقب نثار 31 دسمبر 2016 کو چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر فائز ہوئے، ان کے دور میں عدالتِ عظمیٰ نے انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے دیے جن کے ملک کی سیاست پر بھی گہرے اثرات پڑے۔