ممبئی (جیوڈیسک) ’راک اسٹار بابا‘ اور ’چمکیلے گرو‘ جیسے ناموں سے مشہور بھارت کے متنازعہ مذہبی گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو ایک صحافی کے قتل کے جرم میں ایک خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی۔
صحافی رام چندر چھترپتی کے قتل کے معاملے میں مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) کی پنچکولہ خصوصی عدالت نے اکیاون سالہ گرمیت رام رحیم سنگھ کے علاوہ تین دیگر ملزمان کو بھی عمر قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزائیں سنائیں۔ عدالت نے اسی ماہ کی گیارہ تاریخ کو ان چاروں کو اس صحافی کے قتل کا قصور وار قرار دیا تھا۔ گرو رام رحیم سنگھ اپنی دو عقیدت مند خواتین کے جنسی استحصال کے معاملے میں پہلے سے ہی جیل میں بند ہیں۔ اس معاملے میں عدالت نے 2017میں انہیں بیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
سز اسنائے جانے سے قبل کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پنجاب اور ہریانہ کے مختلف شہروں میں حکم امتناعی نافذ کر دیے گئے تھے۔ تقریباً ایک ہزار سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں اورصورت حال پر نگاہ رکھنے کے لیے ڈرون کیمروں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ عوام کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں نے فلیگ مار چ بھی کیا۔
صحافی رام چندر چھترپتی کے قتل کا معاملہ سولہ برس پرانا ہے۔ 2002ء میں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ہی پہلی مرتبہ اپنے اخبار ’پورا سچ‘ میں گرمیت رام رحیم سنگھ کے آشرم ’ڈیرہ سچا سودا‘ میں مبینہ بدعنوانیوں کی خبریں شائع کی تھیں۔ قتل کے بعد ان کے رشتہ داروں نے کیس درج کرایا تھا اور سی بی آئی نے اس کی انکوائری کے بعد2007ء میں ایک چار ج شیٹ فائل کر دی تھی۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے گیارہ جنوری 2019ء کو اس کیس میں رام رحیم سنگھ کو قتل کی سازش کا قصور وار قرار دیا تھا اور سزا کی مدت کا فیصلہ آج 17جنوری تک کے لیے محفوظ کر لیا تھا۔
حکومت نے سابقہ تجربات سے سبق لیتے ہوئے عدالت سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سزا سنانے کی درخواست کی تھی۔ عدالت نے یہ درخواست مان بھی لی تھی۔ 2017ء میں جب گرو رام رحیم سنگھ کو سزا سنائی گئی تھی، اس وقت ان کے عقیدت مندوں نے بڑے پیمانے پر آتش زنی اور لوٹ مار کی تھی، جس میں کروڑوں کی املاک تباہ ہوگئی تھیں۔ اس کے علاوہ چالیس سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً تین سو زخمی بھی ہو گئے تھے۔ حالانکہ ابھی تک کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع نہیں ملی تاہم حکومت اور انتظامیہ کوئی بھی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ پچھلی مرتبہ حکومت کی سستی پر عدالت نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔
بھارت میں مذہبی گروؤں کا عوام پر خاصا اثر و رسوخ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس وقت کئی گرو بدعنوانی اور جنسی استحصال کے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ہندو سادھوؤں کی سب سے باوقار اور اعلیٰ ترین ملک گیر تنظیم اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد نے چودہ ’بابوں‘ کی ایک فہرست جاری کی ہے اور حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بالخصوص پنجاب اور ہریانہ میں گرمیت رام رحیم سنگھ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت کی مختلف ریاستوں حتیٰ کہ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا تک میں موجود ان کے عقیدت مندوں کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہ عقیدت مند اس بابا کے ایک اشارے پر کسی بھی پارٹی کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
گرو گرمیت رام رحیم سنگھ کو ’روک اسٹار بابا‘ اور ’چمکیلا گرو‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں اور چمکتی ہوئی جیولری پہننا ان کا ایک خاص انداز ہے۔ وہ بالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی جلوہ گر ہو چکے ہیں، جو انہوں نے اپنی ہی دولت سے بنائی ہیں۔ تاہم ان کا ذریعہ روزگار کیا ہے؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور ہریانہ کی حکومتیں بابا کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں اور ہر ممکن خوشگوار تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ گرمیت رام رحیم سنگھ ان چند لوگوں میں شامل تھے، جنہیں انتہائی درجے والی ’زیڈ پلس‘ سکیورٹی حاصل تھی۔ اس طرح کی سکیورٹی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی صدر امیت شاہ کے علاوہ صرف چند ایک دیگر افراد ہی کو حاصل ہے۔
یوں تو گرمیت رام رحیم سنگھ نے سماجی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے کام کیے اور خود کو ایک سماجی مصلح کے طور پر بھی پیش کیا، تاہم وہ کئی تنازعات کا شکار بھی رہے۔2007ء میں وہ اس وقت ایک زبردست تنازعے کی زد میں آ گئے تھے جب انہوں نے ایک اشتہار میں خود کو سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ کے لباس میں پیش کیا تھا۔
گرمیت رام رحیم سنگھ خود کو روایتی ’بابوں‘ سے یکسر مختلف انداز میں پیش کرتے تھے۔ انہوں نے ماڈرن لباس پہنا، حتیٰ کہ فلموں میں اداکاری کی، رقص کیا، گانے گائے اور اسپورٹس بائیک تک بھی چلائی۔ ان کے عقیدت مند انہیں صرف فلموں میں ہی نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی ’بھگوان کا اوتار‘ سمجھتے تھے۔ گرمیت رام رحیم سنگھ ’ڈیرہ سچا سودا‘ کے تیسرے گرو ہیں۔ یہ ڈیرہ بلوچستان کے رہنے والے شاہ مستانہ مہاراج نے 1948ء میں ہریانہ میں قائم کیا تھا۔
سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے ’ڈیروں‘ نے پنجاب اور ہریانہ میں ابتدا میں سماجی ترقی اور ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جیسے جیسے ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی گئی، انہوں نے سیاسی اہمیت اختیار کرنا شروع کر دی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان ’ڈیروں‘ کے سربراہان کو نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی۔
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
بھارت میں ذات پات پر تحقیق کرنے والے دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر پروین کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ڈیرے بھارت میں نئی مذہبی تحریک کا حصہ ہیں۔ ملک میں جن طبقات کو ان کے مذاہب سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی گئی اور جو ’بھید بھاؤ‘ کا شکار رہے، انہیں ان ڈیروں نے ہی گلے لگایا۔ ان ڈیروں میں آ کر ایسے افراد کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ڈیروں کے ماننے والوں میں زیادہ تعداد دلت ذات کے افراد اور انتہائی پسماندہ طبقات کے لوگوں کی ہے۔ ہریانہ میں دلتوں کی تعداد بیس فیصد اور پنجاب میں تینتیس فیصد ہے اور ڈیرہ کی بنیاد بھی انہی لوگوں کے بل پر قائم ہے۔‘‘
ان ڈیروں میں تمام مذاہب کا احترام کرناسکھایا جاتا ہے، ’بھید بھاؤ‘ کو ختم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اونچ نیچ اور امیر غریب کے فرق سے اوپر اٹھنے کے لیے اس ڈیرے کے ایجنڈے کی وجہ سے ہی دلت اور پسماندہ طبقات کے لوگ اس سے بڑی تعداد میں وابستہ ہوئے ہیں۔
پروین کما ر کا تاہم کہنا ہے، ’’ڈیرے اگرچہ مذہبی اداروں کے طور پر کام کر رہے ہیں، تاہم وہ اب سیاست میں کٹھ پتلی بھی بنتے جا رہے ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد کی بنیاد پر ہی سیاسی جماعتیں بھی ان ڈیروں سے سودے بازی کر لیتی ہیں۔‘‘