تحریک انصاف حکومت آنے کے بعد بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ،اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں کئی بار اجلاسوں ، ٹاک شوز میں الفاظی جنگ ہوئی لیکن پھر بھی تبدیلی کا سفر جاری اور ساری ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کئی سابق روایات کو ختم کرکے ایک نئی نظام کی بنیاد رکھی جس کو آج اپوزیشن ’’یو ٹرن ‘‘ کا نام دے رہے ہیں ۔شائد وزیراعظم عمران خان قومی مفادات کی خاطر ’’یوٹرن ‘‘ نہ لیتے تو اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف ، سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک نہ ہوتے ، الیکشن مہم کے دوران ایک دوسرے پر الزام ترشی کرنے والے معززین آج اتحاد محروم رہتے ۔
سیاست میں ماضی کے دشمن آج کے دوست کیسے بنے ؟چندروزقبل اسلام آباد میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہواجس کی صدارت میاں شہبازشریف نے کی ،جس مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ حکومتی معاشی پالیسیاں قومی سلامتی کیلئے خطرہ بن چکی ہیں۔حکومت کی نااہلی، ناتجربہ کاری اور بے حسی کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں،حکومت نے بدانتظامی اور نالائقی کی وجہ سے عوام کو بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار کردیا،ناقص پالیسیوں کی بدولت میڈیا صنعت کوشدید بحران کا سامنا ہے ،بڑی تعداد میں میڈیا ورکرز اور صحافی بے روزگار ہورہے ہیں،پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تیسرے منی بجٹ کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔
اپوزیشن اتحاد کیوں ہوا؟ امید ہے کہ جلد حقیقت عوام کے سامنے آجائے گی ، اپوزیشن کے درمیان یہ اتحاد وقتی ہے یا مستقل ؟ مقاصد کیا ہیں ؟ حکومت سیاسی سطح پر اپوزیشن کا مقابلہ کر پائے گی ؟ فوجی عدالتوں کے تسلسل کیلئے اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے گی اور یہ کہ آنے والے وقت میں سیاسی و معاشی استحکام قائم ہو پائے گا ؟ جہاں تک اپوزیشن کی سر جوڑنے کا سوال ہے تو ماضی میں بھی حکومتوں کے خلاف اپوزیشن اتحاد بنتے رہے ہیں لیکن یہ عمل حکومتی مدت کے تقریباً ڈیڑھ دو سال کے بعد شروع ہوتا تھا۔ جب حکومتیں ڈلیور کرنے میں ناکام ہوتی نظر آتی تھیں اور عوام کے اندر مایوسی اور بے چینی جنم لینا شروع ہوجاتی تھی۔ دوسری جانب جن بنیادوں پر اپوزیشن اتحاد قائم ہواہے تاریخ گواہ ہے کہ پیپلزپارٹی ’’ آصف علی زرداری‘‘ کے دور میں بجلی اور گیس لوڈشیدنگ کا کیا حال تھا ،اور اسی طر ح مسلم لیگ ن ’’ میاں نوازشر یف ‘‘کے دورمیں میڈیا اور عدالیہ کے ساتھ کیا سلوک ہوا ،دونوں جماعتوں کی قیادت خصوصاً میاں شہبازشریف موجودہ اپوزیشن لیڈر نے شہید بے نظیر بھٹواور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کے ساتھ کیا کیا سلوک کیے ۔یہ سب کچھ آج بھی عوام کویاد ہوگا ۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں اور خصوصاً ملک کو در پیش معاشی بحران پر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والا اتحاد اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عزم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ کے برعکس بہت پہلے بلکہ ابتدائی چند مہینوں میں ہی اپوزیشن جماعتوں کا سر جوڑنا اور حکومت کے مقابل آ کھڑا ہونا خطرے سے خالی نہیں اور اس کا کریڈٹ اپوزیشن جماعتوں کو نہیں بلکہ حکومت اور خصوصاً بعض وزرا کو دیا جا سکتا ہے جن کے طرز عمل اور غیر ذمہ دارانہ بیانات نے ایک دوسرے کی جان کے دشمن اور ایک دوسرے کو سڑکوں پر پھینکنے اور اپنے انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرنے والوں کو ساتھ ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کا یہ اقدام منتخب حکومت کیلئے واضح پیغام ہے جسے وہ کس حد تک سمجھ پاتی ہے یہ آنے والے وقتوں میں پتہ چلے گا۔وقتی طور پراب ایوان کے اندر اپوزیشن اتحاد کی وجہ سے نہ صرف حکومت پر دباؤ آئے گا بلکہ خود نیب پر اسکے اثرات ہوں گے اور اپوزیشن غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز احتسابی عمل کو ہتھیار بناتے ہوئے احتساب کو چیلنج کرتی نظر آئے گی۔ جہاں تک اپوزیشن اتحاد کے وقتی اور مستقل ہونے کا تعلق ہے تو اس کا انحصار بھی حکومت کے طرز عمل پر ہوگا۔
ماہرین ، مبصرین کا کہنا ہے کہ اچھا ہوتا کہ اگر حکومت اپوزیشن کی مخالفت کے ساتھ ساتھ عوام کو کسی حد تک ریلیف مہیا کرتی۔ گورننس قائم کرتی، سیاسی تبدیلی کا عمل نظر آتا۔ یعنی عوامی سطح پر اطمینان پایا جاتا تو اپوزیشن پر پرزے نہ نکالتی۔ لوگ ان کی باتوں پر توجہ نہ دیتے اور نہ ہی وہ حکومت کے خلاف اکٹھے ہوتے نظر آتے۔ کیونکہ ابھی تک اپوزیشن کے کسی ذمہ دار رہنماء نے یہ نہیں کہا کہ ہم حکومت گرائیں گے یا اسے چلنے نہیں دیں گے۔ لیکن خود حکومتی حالات عوامی سطح پر مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث پیدا شدہ رجحانات اور سیاسی محاذ پر درجہ حرارت میں اضافہ سے اپوزیشن کو سر جوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اجلاس کے شرکا میں سے کسی نے کہا کہ ایشوز پر اتفاق رائے ہوا ہے، کوئی بولا کہ اتحاد ہو سکتا ہے اور سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ اتحاد ہوگیا۔ یعنی کہ یہ سیاسی محاذ پر ایک بڑی پیش رفت سے جہاں تک فوجی عدالتوں کے مستقبل اور تسلسل کا سوال ہے تو سیاسی جماعتوں نے تمام تر تحفظات کے باوجود بالآخر فیصلہ فوجی عدالتوں کے حق میں ہی کرنا ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں بڑا کردار فوج کے ساتھ ان فوجی عدالتوں کا بھی ہے، اس عمل سے ہی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک ختم ہوگا۔ کیونکہ فوج کبھی نہیں چاہے گی کہ دہشت گردی کے حوالے سے اپنی کامیابی کو خطرہ میں ڈال دے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور وزیر اعظم عمران خان ’’ماضی کے دشمن آج کے دوست‘‘ اتحاد کا اعزازحاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی رہنماؤں اور خصوصاً بعض وزراء کے طرز عمل اور غیر ذمہ دارانہ بیانات میں تبدیلی پر غور کریں۔