لاہور (جیوڈیسک) سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے ساہیوال واقعے پر نئی وضاحت سامنے آگئی ہے جب کہ مبینہ مقابلے میں مارے گئے افراد کی میتیں ورثاء کے حوالےکردی گئیں ہیں جس پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔
سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے ساہیوال واقعے پر نئی وضاحت سامنے آگئی جس میں بتایا گیا کہ ہم نے دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا ہے۔
سی ٹی ڈی پنجاب کے ترجمان کے مطابق گزشتہ روز سیف سٹی کیمرے سے ایک مشتبہ کار کی نشاندہی ہوئی، جس میں اگلی سیٹ پر 2 مرد موجود تھے اور وہ لاہور سے ساہیوال جا رہے تھے۔
اس موقع پر ساہیوال میں سی ٹی ڈی ٹیم کو کار کو روکنے کے احکامات دیے گئے، تاہم کار کو روکا گیا تو وہ نہیں رکی اور کار کے ڈرائیور ذیشان نے سی ٹی ڈی پر فائرنگ کی۔
کار کے پیچھے آنے والے موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان نے بھی سی ٹی ڈی اہلکاروں پر فائرنگ کی۔
ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب کے مطابق دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں دہشت گرد ذیشان ہلاک ہوگیا، جب کہ اس کے ساتھ کار میں سوار خاندان کے افراد بھی گولیوں کا نشانہ بنے۔
ترجمان کے مطابق گاڑی کے شیشے کالے تھے جس کے باعث پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون اور بچے نظر نہیں آئے اور وہ بھی گولیوں کا نشانہ بنے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک ہونے والے ملزم ذیشان نے اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کیا اور خاندان کو بورے والا تک کی سواری فراہم کی۔
انہوں نے بتایا کہ ذیشان کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا اور خاندان کو بورے والا چھوڑنے کے بعد اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اسے خانیوال یا ملتان میں کہیں چھوڑ دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شاید خلیل کے خاندان کو ذیشان سے متعلق معلوم نہیں تھا کہ وہ دہشت گرد بن چکا ہے، دہشت گردوں نے خاندان کو استعمال کیا اور وہ اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
جب میڈیا پر واقعے کی خبریں نشر ہوئیں تو ذیشان کے گھر پر چھپے دہشت گرد باہر نکلے تاہم انٹیلجنس حکام نے انہیں شناخت کرلیا اور ان کا پیچھا کیا گیا۔
اس موقع پر دہشت گرد گوجرانوالہ چلے گئے جنہوں نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھیں اور ان کے پاس گرینیڈ تھے۔
ترجمان سی ٹی ڈی پنجاب نے بتایا کہ جب انہیں گھیرا گیا تو انہوں نے گوجرانوالہ میں خود کو رات 10 بج کر 57 منٹ پر اڑا لیا۔
دوسری جانب سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے گئے افراد کی میتیں ورثاء کے حوالےکردی گئیں ہیں جس پر لواحقین غم و غصے سے نڈھال ہیں۔
ورثا سمیت دیگر افراد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جی ٹی روڑ پر لاشیں رکھ کر سراپا احتجاج ہیں۔
ورثا ءنے لاشیں رکھ کر اور ٹائرز جلا کر سڑک بلاک کر دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جب تک واقعے میں ملوث افراد کےخلاف مقامی تھانے میں مقدمہ درج نہیں کیاجائے گا اُس وقت تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی ٹیم لاہور کی تھی جس کے تھانے مخصوص ہیں جو کہ لاہور میں ہیں یا ملتان میں ہیں تاہم اس کا مقدمہ لاہور میں درج کیا جائے گا۔
ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں مارے گئے افراد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 13 سالہ بچی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، والدہ نبیلہ بیگم کو 4 گولیاں لگیں، والد خلیل کو13 گولیاں لگیں اور کار ڈرائيور ذیشان کو 10 گولیاں ماری گئیں۔
جب کہ سی ٹی ڈی کی کارروائی میں زخمی تینوں بچوں کو لاہور کے جنرل اسپتال میں منتقل کردیا ہے جہاں انہیں طبی امداد دی جارہی ہے۔
تینوں بچے خطرے سے باہر ہیں تاہم عمیر ٹانگ میں گولی لگنے کے باعث اور منیبہ گاڑی کے شیشے ٹوٹنے کی وجہ سے زخمی ہونے کے باعث اسپتال میں زیرعلاج ہیں جب کہ 4 سالہ ہادیہ محفوظ ہیں اور انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی نے مشکوک مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 انسانی زندگیاں چھین لیں، مرنے والوں کو داعش کا دہشت گرد قرار دے دیا، اہل کاروں نے پہلے گاڑی کے ٹائروں پر گولیاں برسائیں، گاڑی بیرئیر سے ٹکراَئی تو ونڈ اسکرین اور پچھلے دروازے سے فائرنگ کرکے کار سواروں کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔
عینی شاہدین کے مطابق کار سواروں نے نہ گولیاں چلائیں، نہ مزاحمت کی، گاڑی سے اسلحہ نہِیں بلکہ کپڑوں کے بیگ ملے، جان سے جانے والوں کے گھروں میں کہرام مچ گیا۔