میں نے گزشتہ کالم میں پی ٹی آئ کی مسیحی رکن پنجاب اسمبلی محترمہ شنیلا روتھ کے متنازضہ بیان کے حوالے سے زکر تھا جس میں محترمہ شنیلا روتھ نے کرسمس کی ایک تقریب میں جزبات میں آکر یہ کہہ دیا تھا کہ عمران خان کی صورت میں ان کو یسوع مسیح نظر آتے ہیں اور یہ کہ عمران خان یسوع مسیح کی صورت میں آ چکے ہیں۔ چونکہ مسیحیوں سمیت عالم اسلام بھی اس بات پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح ابن مریم نے زمین پر دوبارہ آنا ہے۔تو شنیلا روتھ صاحبہ کا یہ بیان توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے تمام دنیا میں رہنے والے مسیحیوں کی دل آزاری ہوئ ہے۔اس ویڈیو کو سُننے کے بعد میں نے چند اور معروف مسیحیوں سے اس ویڈیو کے متعلق رائے لی تو سب نے ہی اس بیان پر اپنے دکھ اور برہمی کا اظہار کیا۔ معروف بائبل ٹیچر، عالم ،مبلغ اور پاسٹر نوید ملک نے شنیلا روتھ صاحبہ سے معزرت کا تقاضہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات سے آپ اپنے آقاؤں کو خوش کر تے ہیں مگر قوم آپ کو کبھی معاف نہی کرے گی۔ کیلی فورنیا سے ریورنڈ ڈاکٹر ایشلے ڈیوڈ نے بھی اس بیان کی سخت مزمت کی۔ دی لیوینگ اسٹون اردو چرچ ہالینڈ کے پاسٹر ریورنڈ ندیم دین نے اس بیان پر اپنے شدید دُکھ اور غم کا اظہار کیا کہ کیسے عمران خان کو یسوع مسیح کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ ادب اور شاعری کے حوالے سے معروف نام محترمہ شرلی انجم جو خود بہت حلیمی اور متانت سے گفتگو کرتی ہیں وہ بھی شنیلا روتھ صاحبہ سے سخت ناراض ہیں اور فرماتی ہیں کہ ان کو اپنے اس بیان پر معزرت کرنی چاہئے۔ میری زاتی طور پرمحترمہ شنیلا سے بات ہوئ تھی۔ فون پر محترمہ شنیلا نے وعدہ کیا کہ اگر میرے بیان سے قوم کی دل آزاری ہوئ ہے تو میں اس کی وضاحت کرونگی۔ کیونکہ میرا مقصد یہ نہی تھا۔ محترمہ نے کہا تھا کہ وہ ایک ویڈیو کلپ کے زریعے اپنی وضاحت پیش کریں گی۔ مگر دوسرے دن انہوں نے اپنی ویڈیو میں اپنے بیان کو اپنے خلاف پروپیگینڈہ قراردے دیا۔ فون پر محترمہ نے ایک اور بات کی تھی جس پر میں نے اختلاف کیا تھا وہ یہ تھی کہ آسیہ بی بی کی رہائ کے پیچھے عمران خان کا ہاتھ تھا۔
میں نے کہا تھا کہ پہلی بات یہ کہ چونکہ آسیہ بی بی بے قصور تھی، دوسری بات ہماری سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اوورسئیز پاکستانی کرسچن آلائینس نے اپنی سکائیپ میٹینگ میں اس بیان کو جھوٹا اور لغو قرار دیا اور اس کی سخت الفاظ میں مزمت بھی کی۔ چئیرمین اعجازمیتھیو زوالفقار اور سنیئر وائس چئیرمین اور سابق ایم پی اے سندھ اسٹیفن پیٹر نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ مسیحیوں کو ان کے نمایندے منتخب کرنے کے لئے ووٹ کا حق دیں۔ تاکہ وہ اپنی مرضی کے نمایندے منتخب کریں۔ شنیلا روتھ سمیت جتنے بھی اقلیتی نمایندے ہیں ان کو اپنی کمیونٹی کے لئے کام کرنا چاہئے۔
صائمہ مسیح اور سلمیٰ مسیح کے خلاف ایف آئ آر کٹ چکی ہے۔ گو کہ چک جھمرہ کے ایس ایچ او کے خلاف ان بچیوں کو حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف کاروائ شروع ہو چکی ہے مگر یہ سب نظروں کا دھوکا ہے۔ جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں میرے پاس ایک اور خبر حبس بے جا کے حوالے سے موجود ہے۔ کہ تحصیل چیچہ وطنی کے رہائشی پرویز مسیح اور اس کی بیوی زمیندار محمد شہباز کی زمین پرکام کرتے تھے۔ محمد شہباز کی نظر اس کی بیوی پر تھی۔ پرویز مسیح نے کرسمس کے لئے چھٹی اور تنخواہ کا مطالبہ کیا جس سے جھگڑہ ہوا تو زمیندار محمد شہباز نے پرویز مسیح پر 25 لاکھ کے جانور کی چوری کا الزام لگا کر اسے تھانہ ہڑپہ میں بند کروا دیا۔ آج پرویز مسیح کو تھانے میں بغیر ایف آئ آر کے اور بد ترین تشدد برداشت کرتے ہوئے 20 دن گزر گئے ہیں مگر کوئ اس کی فریاد سننے والا نہی ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پرویز مسیح تشدد کے سبب جسمانی طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔
اہل محلہ گواہی دینے کو تیار ہیں کہ پرویز مسیح ایک پیسہ چوری نہی کر سکتا۔ مگر پاکستان میں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر ہمارے نمایندے اپنے لیڈرز کی چمچہ گیری میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن چکے ہیں۔ کوئ اپنی کمیونٹی کے لئے اواز بلند نہی کرتا۔ کوئ نہی بتاتا کہ آسیہ بی بی کہاں ہے۔ کیا یہ آزادی ہے کہ وہ کئ پہروں میں قید ہے اور پہرے دار بھی مسیحی پولیس ایلکار ہیں۔ نو سال جیل میں بے قصور گزار دیئے اب بھی ایک طرح کی قید ہی ہے۔
کیا آسیہ بی بی پاکستان میں آزادی سے گھوم سکتی ہے؟۔کیا اپنے بچوں کے ساتھ کسی پارک میں، شادی میں یا کسی تقریب میں آزادی کے ساتھ شرکت کر پائے گی اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں مگر دیتے نہی ہیں کیونکہ اس کا جواب بہت تلخ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت نے انتہا پسندوں کے خلاف جو قدم اٹھایا ہے وہ یقینی طور پر قابل تحسین ہے۔ کیونکہ اس سے قبل کوئ بھی حکومت یہ ہمت نہی کر سکی۔ مگر اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے طویل مدتی (لانگ ٹرم) پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قوم میں رنگ،نسل مزہب کی تفریق ختم ہو گی۔ ایکتا ہو گی، یکجہتی ہو گی۔