پاکستان میں اَن ہونے واقعات کا ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔ہر روز کہیں نا کہیں ایسے واقعات پاکستان کا مقدر بن چکے ہیں۔خاص طور پر سرکاری اداروں کے ہاتھوں سینکڑوں معصوم دہشت گرد بنا کر موت کے گھاٹ اتارے جاتے رہے ہیں۔ہمارے اداروں کو خاص طور پر جو چہرے نا پسندیدہ لگتے ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے نام پر آسانی کے ساتھ راستے سے ہٹا دیا جاتاہے اور اُن بڑے دہشت گردوں کا اس ملک میں کوئی بال بھی بیکا کرنے ولا نہیں جو ہی حرکتیں دن رات کرتے پھرتے ہیں۔کیونکہ انہیں بہت سی آشیرواد حاصل ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں بے تحاشہ نیٹ ورک اور ایجنسیاں میرے وطن کے خلاف سرگر میوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ان کو روکنے اور نشانہ بنانیوالے کہاں ہیں؟اورشائد ہمارے ادارے بھی ان سے خائف رہتے ہیں۔جب یہ بے قابو ہوگئے تو ہز ماسٹرز وائیس پر لبیک کہا جانے لگا۔وہ ادارے بھی جوسرحدوں کے نگہبان ہیں۔انہیں بھی ملک اور عوام کے خلاف دہشت گردی کے نام پر کاروائیوں میں مصروف کردیا گیا ہے۔مزیدار امر یہ ہے کہ پہلے ان لوگوں نے روسی جارحیت کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گرد وں کی لاٹیں پیدا کیں اور اب ان لاٹوں کے خلاف امریکہ کی آشیر واد اور خود ان کی گندی کار وائیوں کے خلاف بھر پور کاروائی عمل میں لاکر ملک سے ان لوگوں کا تقریباََ خاتمہ کر دیاگیا ہے۔
بہر حال بات ذرا آگے نکل گئی ہے جنوری 2018 کے آخری ہفتے میں کراچی میں وانا کے ایک 27 سالہ خوبرو نوجوان نقیب اللہ محسودکو اداروں کے لاڈلے پولیس آفیسر راؤ انوار نے دہشت گرد ی کے نام پرگولیوں کا نشانہ بنا کر ،اپنے قاتل ہاتھوں پر ایک اور معصوم انسان کے خون کے نشانات ثبت کر لئے اور کہا کہ یہ TTPکا دہشت گرد تھا ۔مگر دوسر جانب افغانستان سے تحریکِ طالباکی جانب سے بھی اس بات کی سختی سے تردید کردی گئی تھی کہ نقیب اللہ محسود کا تحریکِ طالبان سے کوئی تعلق تھا۔ڈان کی خبر کے مطابق ایف آئی اے نے راؤ انوار کے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ورنہ یہ پاکستانیوں کی نظروں سے اجھل ہو کر مغرب کے ملک میں عیاشیاں کر رہا ہوتا،گو کہ عیاشیاں تو اس کو یہاں بھی مکمل طور پر میسر ہیں۔جبکہ اس کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی نے بھی راؤ انوار کو مجرم قرار دے چکی ہے۔مگرجناب وہ ٹہرا طاقتوروں کا لاڈلہ اور آج تو پاکستان میں حکومت ہی طاقتوروں کے لاڈلوں کی ہے۔کسی کی مجال ہے کہ اس کی عیاشیاں ماند کر سکے؟
پولیس گردی کا ایک اور اندوہ ناک واقعہ کل ساہیوال میں پیش آیا۔جہاں ایک شریف خاندا جو شادی کی تقریب میں بورے والا جا رہا تھا۔والدین کو اُن کے تین معصوم بچوں کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا کرچاربے گناہوں کوجن میں خلیل ان کی اہلیہ نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اور ڈرائیور ذیشان کو قتل کر کے موت کی نیند سلا دیا ہے دیا گیا ہے۔ اس ظالمانہ دہشت گردی کے واقعے نے تو لوگوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں ۔ لوگوں میں ہر جانب حیرانی و پریشانی ہے۔اداروں کے ذریعے اس ملک کو کس جانب گھسیٹا جا رہا ہے؟ کہیں ایساتو نہیں ہے کہ ملک میں انارکی پیدا کرا کے اقتدار پر کوئی اور قابض ہونے کی سوچ رکھتا ہو؟
سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ گاڑی کے تعاقب کے دوران، پہلے گاڑی سے فائرنگ کی گئی جو انتہائی لغو اور بے بنیاد ہے۔ کیونکہ جب ان اہلکاروں کی گاڑی نے خلیل کی فیملی کی گاڑی کو ہٹ کیا تو پیچھے آنیولی مسافر بس سے لوگوں نے جو ویڈیو بنائی ہے اس سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کار سے فائرنگ کی گئی۔ بلکہ جب کار اٹکر لگنے کے بعد سائڈ پر لگے بیریئر سے ٹکرا کر رکی تو ان اہلکاروں نے گاڑی پراندھا دھند فائر کھولدیااور چار بے گناہ معصوموں کی جان لے کر اُلٹا انہیں دہشت گرد قرار دے کر اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔ ویڈیو کے مطابق اہلکاروں نے کوئی اسلحہ یا خود کُش جیکٹ بھی گاڑی سے برآمدنہیں اور نہ ہیکوئی اسلحہ بر وآمدکیا۔ بلکہ اُن بچوں کو گاڑی سے اتارکر لیجاتے ہوئے دیکھے گئے۔ جن کو انہوں نے دہشت گرد قرار دیدیاا ور ایک پیٹرو ل پمپ پرلیجا کر اتار کرچلے گئے۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ دہشت گردی کرنے والے، شرفا ء اور ان کے بچوں کو دہشت گرد کہہ کر اپنے سیاہ چہرے چھُپا رہے ہیں۔
پنجاب حکومت اور اس کے وزرء ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ یہ لوگ دہشت گرد تھے ۔صوبائی وزیر قانوں راجہ بشارت نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے مطابق ذیشان داعش کے لئے کام کرتا تھا،پہلا فائر اسی نے کیا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذیشان فیملی کے ساتھ کس لئے جا رہا تھا۔موصوف مزیدفرماتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کہتی ہے کہ آپریشن سو فیصد درست تھا۔کارو ئی انٹیلی جینس معلومات کے تحت کی گئی تھی۔راجہ بشارت نے مزید الزمات لگاتے ہوئے کہا کہ 13 جنوری کو ہنڈا سٹی لے کر ساہیوال گئی تھی 18جنوری کو تصدیق ہوئی کہ ذیشان دہشت گردوں کے لئے کام کر رہا ہے۔
پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بُزدار اور ان کے وزراء ان شریف لوگوں کو دہشت گرد قرار دلوانے کی بھر پور کوشش کرتے دیکھے گئے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں کو زندہ گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا؟ جبکہ کار بیریئر سے ٹکرانے کے بعد رکی اور اُسمیں سے کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں ہوتی دیکھی گئی۔ تو پھر ان بے گناہوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کس ایجنڈے کے تحت کی گئی۔جے آئی ٹی میں جن ایجنسیوں کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے ،کیا یہ وہ ہی لوگ نا ہونگے جن کے اشاروں پر یہ قتلِ عام کا بازار گرم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب صدر مملکت نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ساہیوال کا واقعہ بہت تکلیف دہ ہے۔جن بچوں کے سامنے والدین کو شہید کر دیاگیا اُن کے ذہنوں پر کتنے مضر اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے!تیسری جانب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اور ان کے رہنماؤں نے ا س واقعے کی شدید الفاط میں مذمت کی ہے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔آج پورا پاکستان ان چار معصوموں کے ناحق قتل اور ان تین ننھے یتیموں کے معاملے پر سراپہ احتجاج ہے۔ان تین معصوم چہروں کو دیکھ کر ہر پاکستانی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا یہ معصوم چہرے دہشت کردوں کے ہیں؟
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co