نقیب اللہ محسود گزشتہ حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس تھا، اس کیس میں دانستہ یا غیردانستہ غلطی کو منطقی انجام تک پہنچانے سے حساس معاملات سے بچا جاسکتا تھا۔ شاید کچھ ایسی امیدیں بھی وابستہ تھیں کہ نقیب اللہ کیس جیسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔ ان امیدوں کی ناکامی سے ساہیوال واقعے نے کئی سوالات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ ساہیوال میں جو کچھ ہوا، اس پر اتنا کچھ کہا جاچکا اور لکھا، بولا، سنا جارہا ہے، اس کے بعد مزید کچھ لکھنے کے لیے الفاظ ہی نہیں بچے۔
اداروں میں کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں اور مخبر خاص کی اطلاع کو مصدقہ نہیں سمجھنا چاہیے، سکیورٹی ادارے کے ہاتھوں مارے جانے والے زیادہ تر افراد کالعدم تنظیموں سے وابستہ اور خطرناک دہشت گرد ہوتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز اہلکاروں کی شہادتیں بھی ان ہی کالعدم تنظیموں کی جانب سے منظم منصوبہ بندی کرکے کی جاتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف اپنی قیمتی جانوں کی قربانی ہماری سکیورٹی فورسز سب سے پہلے دیتی ہیں، لیکن پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے خلاف دشنام طرازی شروع کردی جاتی ہے، نام نہاد موومنٹ بناکر ملک دشمن عناصر ہرزہ سرائی کرتے ہیں، ملک و بیرون ملک، مملکت کو بدنام کرنے کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، ناپختہ اذہان کو برین واش کرنے کے لییوطن عزیز کے خلاف ملک دشمنوں کی فنڈنگ اور سہولت کاری سے دنیا بھر میں ریاست کا امیج بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ ماڈل ٹائون، 12 مئی، بلدیہ، سٹی کورٹ سانحہ، نقیب اللہ محسود کیس، امل کیس اور ساہیوال جیسے کئی سانحات رونما ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ انصاف کی تاخیر سے فراہمی میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کے جواب نہ ملنے سے حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ عمران خان، سانحہ ماڈل ٹائون پر سابق وزیراعلیٰ اور سابق وزیر داخلہ پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بناچکے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کرچکے تھے، لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد حقائق کب سامنے لاتے ہیں۔
بچوں کی کفالت کی ذمے داری لینے سے ان کا فرض ادا نہیں ہوجاتا، بلکہ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ حقائق کے تاخیر سے آنے کے سبب آج بھی ماڈل ٹائون لاہور، سانحہ بارہ مئی، سانحہ بلدیہ ٹائون، سانحہ سٹی کورٹ کراچی، نقیب اللہ محسود کیس کے لواحقین انصاف کے لیے دربدر مارے پھر رہے ہیں، امل کیس کو منطقی انجام تک نہ پہنچانے پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان افسوس کا اظہار کرچکے ہیں، لیکن اُن پر ماڈل ٹائون، سانحہ بارہ مئی، سانحہ بلدیہ، سانحہ سٹی کورٹ، نقیب اللہ محسود کیس ادھار رہ گئے۔ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لاکھوں مقدمات ورثے میں ملے ہیں۔ منتظر ہیں کہ ماہر قانون اور کم گو چیف جسٹس کے فیصلے کب بولیں گے؟؟ ہم ان سے عدلیہ کے وقار کی بحالی کی مکمل توقع اور امیدیں رکھتے ہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے ان کے افکار کو سراہتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ فوری، سستے اور شفاف انصاف تک ہر عام انسان کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔
یہاں میں ایک ایک نکتے کی نشان دہی کرتے ہوئے تمام سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی قربانیاں مخفی نہیں، ہم سب اپنے وطن کے محافظوں کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن ان اداروں کے ذمے داران کو کم ازکم ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب اُن کے کسی اہلکار سے بہیمانہ واقعہ سرزد ہوجاتا ہے اور وہ ایسے واقعات کو کالعدم تنظیموں اور داعش جیسی خطرناک عالمی دہشت گرد تنظیم سے منسوب کرتے ہیں تو کیا انہوں نے سوچا کہ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کے متعلق کیا پیغام جارہا ہے؟
دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ بچے، خواتین اور مردوں کی ایک بڑی تعداد داعش کی صورت میں پاکستان میں موجود ہے۔ شاید انہوں نے داعش کی اُن ویڈیوز کو دیکھا ہوگا جس میں نابالغ بچے، نوجوان، خواتین بھی داعش کا حصہ بن کر مخالفین کے سر قلم کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں داعش کی موجودگی و محدود نیٹ ورک سے انکار نہیں لیکن جعلی تحقیقات و بیانات سے پاکستان کے امیج کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے، اس پر کبھی ایک لمحے کے لیے سوچا جاتا ہے؟ دہشت گرد، انتہا پسند قابل رحم نہیں، لیکن انہیں بھی سزا دینے کا حق قانون کے پاس ہے۔ اگر ملزموں کو مجرم بناکر سڑکوں پر عدالتیں لگاکر فیصلے کرنے کی روش کو ختم نہیں کیا گیا تو اس وتیرے اور انتقام کی کوکھ سے ان گنت ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کے والدین کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ پاک فوج کے سپہ سالار ففتھ جنریشن وار سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے آپریشن ردُالفساد کا سپاہی بننے کا مشورہ دیتے ہیں، بلاشبہ اس وقت قوم کے ایک ایک فرد کوآپریشن ردُالفساد کا سپاہی بننا چاہیے۔ اس کے سپاہی ہونے کی حیثیت سے عوام تمام ریاستی اداروں کے ساتھ شانہ بہ شانہ بھی کھڑے ہیں، لیکن جب ماڈل ٹائون، سانحہ 12 مئی، سانحہ بلدیہ، سانحہ سٹی کورٹ، نقیب اللہ محسود کیس، امل کیس اور ساہیوال سانحہ جیسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں تو ریاست کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ جلد ازجلد حقائق اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو ففتھ جنریشن وار کے مضمرات سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ایسے واقعات کی سچائی سامنے لائیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے لیے سانحۂ ساہیوال پہلا ٹیسٹ کیس ہے۔ ہم اس موقع پر ان سے ماڈل ٹائون لاہور، سانحہ بارہ مئی، سانحہ بلدیہ ٹائون، سانحہ سٹی کورٹ کراچی، نقیب اللہ محسود کیس میں بھی جلد انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ساہیوال سانحے کے حقائق سامنے لانا ان کی اولیّن ذمے داری ہے۔ تمام سکیورٹی اداروں کا احترام سر آنکھوں پر، تاہم حقائق کیا ہیں اور پس پردہ کیا ہے، یہ جاننا ہم سب کا حق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سابق ایم پی اے ملتان سے تعلق رکھنے والے لشکر جھنگوی کے دہشت گرد داعش نیٹ ورک چلارہے تھے، اس نیٹ ورک نے حساس ادارے کے تین افسران کو اغوا کرنے کے بعد شہید کیا تھا، دہشت گردوں کی نگرانی کئی روز سے کی جارہی تھی اور ان کے زیر زمین نکلنے کا انتظار کیا جارہا تھا، اس نیٹ ورک سے وابستہ گوجرانوالا میں بھی ان کے دو ساتھیوں کا اِنکائونٹر کیا گیا۔ گمان کیا گیا کہ ساہیوال واقعے میں جاں بحق ذہیشان اختر ان کا سہولت کار تھا۔ اب سچائی کو عوام کے سامنے لانا اس لیے ضروری ہے کہ اصل حقیقت ہے کیا؟ ریاست کو واقعات کا سدباب و حقائق سامنے لانے کے لیے راست اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ یہ وطن عزیز کی سلامتی و بقا کا معاملہ ہے۔