تارکین وطن اور جدوجہد آزادی کشمیر

British Kashmiri Protest

British Kashmiri Protest

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

ان دنوں برطانیہ میں کشمیری و پاکستانی کمیونٹی سیاسی حوالے سے زیادہ سر گرم رہی، ہر شہر میں میٹنگ ،جلسے ہوتے رہے،کشمیر کاز کو اجاگر کرنے میں اجلاسوں میں دور دراز کا سفر کرنے میں بھی کسی نے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی،یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہفتے میں یہ لوگ ہزار یا آتھ سو میل کا سفر طے کر سکیں گے۔ہر آدمی نے لندن میں آتے جاتے ہوئے اتنا سفر ضرور کیا ہو گا،بالخصوس جو لوگ شمالی انگلستان اور اسکاٹ لینڈ سے تشریف لاتے رہے۔یہ اپنے نظریے سے گہری وابستگی کا نتیجہ تھا،یا حصول حق خود ارادیت کاسیاسی و اخلاقی جذبہ وجنون ۔خواتین مردوں سے بھی زیادہ متحرک نظر آئیں۔تحریک انصاف والوں میں جذبہ و ایکشن انگڑائیاں لیتا ہوا نظر آیا۔

کمال کی بات تو یہ تھی اس دفعہ ہماری ساری سیاسی جماعتوں کے عہدے داران اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر کشمیر کاز کے لئے اکھٹے ہوگئے۔لندن سائوتھ ہال میں رومی ملک اپنی فیاضی اور سیاسی میزبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،وہ ملکی و قومی کاز کے لئے پیسہ تو کیا اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں،فلاحی و اصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیتے ہیں۔ڈیم فنڈ میں اپنی دکان سے گاہکوں سے پائی پائی چندہ باکس میں ڈالوا کر اٹھاسی ہزار بھی اکھٹا کر لیا،تحریک انصاف کی چندہ مہم نے پیسہ اکھٹا کرنے کا انہیں ایک اور طریقہ سکھا دیا۔ معلوم نہیں باقی خرچہ بھی وہ اسی تکنیک سے اکھٹے کئے گئے پیسوں سے کرتے ہیں یا ٹیکس ریٹرن کے بعد قوم پر احسانات کرتے ہیں۔پھر پی ٹی آئی اسکاٹ لینڈ کی فوزیہ بٹ کا جذبہ بھی قابل دیدنی تھا،جو دشوار گذار بل کھاتی ہوئی سڑکوں سے سفر کرتے ہوئے کشمیریوں کی اخلاقی حمایت میں لند ن تشریف لائیں،شاید اسکاٹش لیفٹ ونگ نے فرد کی انفرادی آزادی کا مفہوم انکے دل ودماغ میں نقش کر دیا ہے،اس معاملے میںپی ٹی آئی بر طانیہ کے صدرریاض حسن گرچہ ایک طویل مسافت طے کر کے لندن آتے ہیں مگر ان کا سفر اتنا سیدھا ہے کہ انہیں ایک بھی موڑ نہیں کاٹنا پڑتا جسطرح وہ خود سیدھے سادے ہیں اسطرح ان کا رستہ بھی سیدھا لندن کو آتا ہے ، متوازن شخصیت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شروع سے ہی صراط مستقیم پر قا ئم رہے ہیں۔

پانچ وقت کے نمازی ہیں راست گوئی وبرد باری کی زندہ مثال ہیں۔ عبدل باسط شاہ جنرل سیکریٹری یوکے کو اسلئے خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہیکہ ڈھلتی جوانی میں بھی ان کا جذبہ جوانوں جیسا ہے وہ اس ہفتے مانچسٹر سے اجلاس میں شرکت کے لئے دوبار لندن تشریف لائے ۔ احساس زمہ د اری اور وسیع القلبی کا مرقع ہیں۔ ایک برطانوی طالبہ حفصہ شاید جن کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا بھی سارا دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے جذبے سے سرشار ببیٹھی رہیں کیونکہ نوجوان طالبات بر طانوی پاکستانی سیاست میں دلچسپی نہیں لیتی۔چوہدری حکمداد کشمیر سائوتھ زون لندن کے صدر بھی کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں تھے وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے لئے آواز بلند کرنے کے سلسلے میں یورپ کے ہر کونے پر کھڑے ہوتے ہیں مگر اکیلے نہیںانکے ساتھ چوہدری محمد فاروق جو ایک متحرک ایکٹی وسٹ ہیں ہمیشہ بغلگیر ہوتے ہیں ، کسی ایک کا خیال آئے تو دونوں کی تصویر زہن میں آجاتی ہے،برطانوی کشمیری احتجاجی سیاست میں ہمیشہ پیش پیش ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں جتنے یہ لوگ کشمیر کاز کے لئے متحرک ہیں شائد ہی ا س سے پہلے کوئی ہوا ہو ، اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ برطانیہ میں دس لاکھ سے زائد کشمیری رہتے ہیں جن کی یہ نمائندگی کرتے ہیں،اسی بنا پر تحریک انصاف کشمیر انتظامی لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف سے الگ ہے،مگر سیاسی ارتقا نے ان کے درمیان دوریاں ختم کر دی ہیں۔اب تو پاکستانی کشمیری جماعتیں بھی قومی کاز کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔یہ ایک ایسا خوش آئند پہلو ہے جس سے برادریوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے گروپ ملکی و قومی مفاد کے لئے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوچنے لگے ہیں۔روائتی سیاسی جماعتوں کے پھیلائے ہوئے گند سے باہر نکلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ملکی و قومی مفاد کی خاطر تحریک انصاف کشمیر اور پاکستان کا اکھٹے ہو کر آگے بڑھنے کے عمل سے دیگر جماعتوں کے مابین بھی قربت پیدا ہوئی ہے جوکہ خوش آئند ہے، کیونکہ کشمیر یکجہتی فورم کے اجلاس میں دوسری جماعتوں اور انجمنوں نے بھی شر کت کی۔

نعیم عباس صدر مسلم لیگ کاف،محمد سفیر انٹر نیشنل جٹ فورم،نعیم عباس چئیر مین اور سیز ویلفیر ایسو سی ایشن،فہیم کیانی صدر تحریک کشمیر بر طانیہ زینب خان جنرل سیکرٹری مڈ لینڈ،عالیہ ہا شمی انفار میشن سیکریٹری نار تھ ویسٹ،آصف خان میڈیا کو آرڈینیٹربر طانیہ،منور خان نیازی صدر ر پی ٹی آئی نارتھ ویسٹ ماجد خان نائب صدرپی ٹی آئی یارکشائر،جمیل ظفر بھٹی نمائندہ یوتھ ونگ،بوبی آمین، آزاد جرال، عالیہ ہاشمی مانچسٹر، عابد برمنگھم اور دیگر بہت سے حضرات نے شرکت کی سب کے اسمائے گرامی کو رقم کرنا مشکل ہے مگر ان حضرات نے کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کشمیر سالیڈرٹی فورم میں شرکت کر کے اپنا اخلاقی فرض ادا کر دیا،کسی بھی مظلوم قوم کے لئے سب سے زیادہ طاقتور حمائیت اخلاقی حمایت ہی ہوتی ہے،جو جدو جہد کے عملی دروازے کھولتی ہے اور جو دوسروں کی آزادی کے لئے اخلاقی حمایت کرتا ہے اس کے لئے کوئی دوسری عملی حمایت کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا۔دوسروں کی آزادی پر ایمان رکھنا برتر ایمان کی علامت ہے اور اس کے لئے آواز بلند کرنا اور عملی جدو جہد کرنا جہاد اکبر ہے۔

لندن کے کشمیر فورم میں سب حاضرین نے اس بات پر زور دیا کہ کہ پانچ فروری کو برطانیہ بھر سے لندن ٹریفالگر اسکوئر میں اپنی شرکت کو یقینی بنایئں۔مساجد کے امام اور کمیونٹی رہنما اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،خواتین اور بچوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔جملہ معترضہ کے طور پر تمام حاضرین مجلس اپنی اپنی بیگمات کو بھی احتجاج میں لے آئیں تو خواتین کی قابل قدر شرکت ہو سکتی ہے،اگر پاکستانی کمیونٹی اپنی خواتین کو موبالائز کریں تو مردوں سے زیادہ خواتین شرکت کر سکتی ہیں،کیونکہ ہمارے مرد اکیلے گھر سے باہر نکلنے کے عادی ہیں۔دوسری اہم بات کہ کشمیر اور پاکستان کا جھنڈا لہرانے کے سوا کوئی بھی جماعت اپنا جھنڈا وہاں نہیں لے جائے گی۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی تصویر اور نعرہ اور بینر نہیں لگایا جائے گا۔

نظریہ وآئیڈیالوجی سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق و آزادی کے لئے ہر فرد اظہار یکجہتی کے لئے اپنی موجودگی کو یقینی بنائے گا۔یہ مسئلہ صرف کشمیریوں کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کا امن ،خوشحالی اور ترقی باہمی تعلق وتجارت بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر مسئلہ کشمیر کیوجہ سے دائو پر لگی ہوئی ہے،اور ایک ہی خطہ رہ گیا ہے جو اپنے حق خود ارادیت سے کئی عشروں سے محروم چلا آ رہا ہے۔جس کے لئے جدو جہد کرنا ہم سب کا اخلاقی فرض بنتا ہے۔ دوسروں کی آزادی کی اپنے اندر خواہش ایک بلند تر نصب العین کو پیدا کرتی ہے،جو زندہ ضمیری،اصول پرستی،عشق ومستی اور بلند اخلاق کی امین ہوتی ہے۔آزادی کسی آئیڈیالوجی کا نام نہیں بلکہ اپنے اندرٹھوس سیاسی و سماجی اور مادی حقیقتیں رکھتی ہے،جسے آزاد وجود میں انواع و اقسام کے نغمہء گل کی فصل اگتی ہے۔غلام کتنا ہی متقی و پرہیز گار کیوں نہ ہو وہ امامت کا فریضہ ادا نہیں کر سکتا۔

سنو اے ساکنان ہستی ۔ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر ۔غلامی کی حیات جاوداں سے

Professor Mohammad Hussain Chohan

Professor Mohammad Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

mh-chohan@hotmail.co.uk