آسیہ بی بی کے خلاف اپیل کے حوالے سے فیصلہ 29 جنوری کو ہو گا

 Asia Bibi

Asia Bibi

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ 29 جنوری کو کرے گی کہ آیا اس اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کر دیا تھا۔

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے کے ایک وکیل کے حوالے سے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ 29 جنوری کو کرے گی کہ آیا اس کی طرف سے آسیہ بی بی کیس میں دیے جانے والے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی سزا ختم کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

اگر سپریم کورٹ اپنے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیتی ہے تو پھر آسیہ بی بی کے خلاف آخری قانونی رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی۔ آسیہ بی بی اس وقت حفاظتی تحویل میں ہے۔ آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام میں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ برس اکتوبر میں نا کافی شواہد اور گواہوں کے بیانات میں تضادات کی بنیاد پر آسیہ بی بی کو اس مقدمے سے بری کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے علاوہ بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے ملک کے کئی شہروں میں شدید مظاہرے کیے گئے تھے۔

تحریک لبیک پاکستان کے گرفتار رہنماؤں پر دہشت گردی اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستانی حکومت نے اس کے بعد سے تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں کے خلاف ایک کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔ اس تحریک کے گرفتار رہنماؤں پر دہشت گردی اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ روکنے کے لیے پاکستانی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی اجازت دینے کی حامی بھری تھی۔

آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے والے وکلاء میں شریک غلام مُصطفیٰ چوہدری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 29 جنوری کو ’’عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ بریت کے خلاف ہماری اپیل سنی جائے گی یا نہیں۔‘‘ چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ عام طور پر عدالت اسی دن یہ فیصلہ کر دیتی ہے کہ اپیل داخل کی جائے گئی یا نہیں۔