ایک گائوں میں ایک نائی رہتا تھا جس کا نہ کوئی آگے تھا نہ پیچھے اس کا کل اثاثہ ایک تکہ ایک چادر اور ایک کنبل تھا وہ ایک ٹالی کے نیچے بیٹھ کر لوگوں کی حجامت بناتا اور ساتھ ہی ایک ٹینکی پر سو جاتا ایک روز اس نے دیکھا کہ لو بھاگ رہے ہیں پہکے تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں پھر اس نے سوچا سانوں کی اور مزے سے لیٹ گیا ایک شخص بھاگتا ہوا وہا آیا اور اسے کہا کہ عجیب آدمی ہو ہم پر قیامت ٹوٹ رہے ہے ہمارا مال و اسباب تباہ ہو گیا ہے اور تم ہو کہ بغیر کسی پرواہ کے لیٹے ہو اس نائی نے اٹھتے ہوئے اس آدمی سے کہا کہ آج ہی تو غربت کا چسکا آیا ہے تباہ تو اس کا ہو رہا ہے جس کے پاس کچھ تھا پر اسانوں کی یہ کہ کر وہ چادر اوڑھ کرلیٹ گیا یہ حال آج کل ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
پورا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ریڑھی والے سے لے کر فیکٹری والے تک پریشان ہیں آج کے دور میں اشیاء خوردونوش کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام پر جو تیر چلائے جا رہے ہیں اس کی مثال بھی نہیں ملتی اور روزانہ وزراء ٹی وی پر بیٹھ کر عوام سے یا تو مذاخ کرتے ہیں یا انہیں تسلی دیتے ہیں کہ بیٹا چکھو غربت دے مزے ہمیں تو ووٹ ملا ہے کہ کرپشن روکو ہم اسے روکنے کی کوشش میں لگے ہیں حالانکہ ان کا سو دن کا پلان مکمل دیل ہو گیا ہے سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے کیا سوچ کر عوام کو چکمہ دیا اور پاکستانی بھولی بھالی عوام ان کے نرغے میں آ گئی اب صبح جب گھر سے نکلیں تو سب سے زیادہ ڈکھڑے سناتے دیکھائی دیتے ہیں کئی دوست تو آج بھی دل کو تسلی دیتے نظر آتے ہیں کہ عمران کم از کم کرپشن تو نہیں کرئے گا اسے موقع ملا تو وہ نیا پاکستان بنا کر دم لے گا چاہے پرانے پاکستان والوں کا بھرکس نکل جائے حکمرانوں کو مینڈیٹ ملا تو انہیں عوام کو کچھ ڈلیور کرنا چاہیے تھا نہ کہ چور چور کے نعرے نگاتے پھریں اب حکومت کو چھ ماہ ہونے جا رہے ہیں۔
سوائے غربت افلاس کے مہنگائی کے عوام کو کیا ڈلیور کیا ہے سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق اسٹاک ایجنسیوں سے ڈالڑ غائب ہو چکا روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا عوام نے اسی لئے انہیں ووٹ دئے تھے ہم انڈیا کے مخالف تھے اقتدار میں آئے تو اسی سے ہاتھ ملانے چل نکلے امریکہ کو آنکھیں دیکھا کر دوبارہ انہی سے مدد مانگنے پہنچ جائے ہیں موجودہ حمکرانوں کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے وہ عوام کی خدمت کریں تعلیم علاج معالجے اور بھوک کی جانب توجع دیں میں دیہی علاقوں سے تعلق رکھتا ہوں میں نے دیکھا ہے کہ اب جو گھر کا بجٹ 15000سے چلتا تھا اب 20000 ہزار سے تجاوز کر چکا ہے۔
اگر کسی کو درمیاں میں ہسپتال کے دو چکر لگ جائیں تو پھر نوبت فاکوں پر آ جاتی ہے بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ نوکری کا تصور بھی ناممکن بن چکا ہے غریب عوام ان بھوک کے چسکے اور حکمران میڈیٹ کی نشوں میں گم ہیںانہیں کسی کی پرواہ تک نہیں اب ان سے سوال کرو تو یہ گلے پڑ جاتے ہیں ان کے پاس کوئی جواب نہیں میں تذکرہ کرتا چلوں میرا ایک دوست روزانہ اس خوشی میں ہوتا ہے کہ آج عمران خان نے نواز شریف زرداری کے ساتھ بڑی کر لی ہے میں بتاتا چلوں وہ 22سال سعودی عرب میں رہا ہے۔
ایک روز وہاں موجود ایک دوست نے بتایا کہ وہ آج گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آیااس نے حیرت سے پوچھا کہ کیوں جواب ملا گھر میں گیس سیلنڈر ختم تھا اس نے کہا کہ منگوایا کیوں نہیں یہ دلچسپ مکالنہ میرے سامنے ہو رہا تھا اس نے کہا کہ گیس سیلنڈر2200 روپے کا تھا پہلے پیسے نہیں تھے جب کسی سی پیسے لئے تو سیلنڈر نہیں ملا تو اس نے فاتحانہ انداز میں کہا کہ کل اس نے دو سیلنڈر اٹھا لئے تھے پھر چند دن بعد ہم پھر اکھٹے ہوئے تو بات ایک گاڑی کے ٹائروں کی ہو رہی تھی جو ایک شخص 23000 روپے میں خرید لایا تھا۔
اس شخص نے حیر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال تو اس نے یہی ٹائر17000 میں خریدے تھے اب اتنے مہنگے ہو گئے ہیں وہ دل میں بڑبڑایا مگر ہمیں یہ نہیں پتا چلا کہ اس نے حکمرانوں کو دعا دی یا۔۔۔۔۔۔۔؟ فیس بک پر اب بھی چند افراد ان کے حق میں کلمے کہتے ہیں میرا اب بھی یہ گمان ہے کہ یا تو وہ بھی نائی کی طرح غربت کے چسکے لیتے ہیں یا ان کے گھر ڈالڑوں کی بھر مار ہے اگر یہی حال رہا تو ان شااللہ وہ بھی زمین پر آ کر کہیں گے کہ صلاحوں کاراں دی۔۔۔۔۔۔؟میرا کالم پڑھ کر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں مگر سچ تو یہی ہے۔
Riaz Malik
تحریر : ریاض احمد ملک malikriaz57@gmail.com 03348732994