قطر (جیوڈیسک) طالبان نے کہا ہے کہ قطر میں ان کے امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات آج جمعرات کو مسلسل چوتھے روز میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد گزشتہ 17 برس سے افغانستان میں جاری جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کے امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ترجمان کے مطابق کسی معاہدہ پر پہنچنے کے بعد اس سلسلے میں مزید بات چیت ہو گی۔
واشنگٹن طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ایک امن معاہدے کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں جس کے بعد آئندہ کی افغان حکومت میں طالبان کی شرکت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر نے کہا، ’’فریقین امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کے بارے میں مختلف معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔‘‘ اس کمانڈر کے مطابق اس حوالے سے ایک بیان آج جمعرات کو دیر گئے یا پھر کل جمعہ 25 جنوری کو جاری کیا جائے گا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تاہم کابل میں قائم امریکی سفارت خانے یا نیٹو کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
امریکا نے منگل 22 جنوری کو کہا تھا کہ اس نے قطر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بحال کیا ہے جہاں افغانستان کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔
افغانستان اور طالبان کے امور سے متعلق مہارت رکھنے والے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا یہ اب تک کا طویل ترین سلسلہ ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف زئی کا کہنا تھا، ’’میں نے اب تک ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ یہ پہلی ایسی سنجیدہ کوشش ہے اور یہ جولائی سے اب تک مسلسل جاری ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے اختلاف پر اتفاق کیا ہے اور ملاقات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‘‘
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں تعینات کُل 14,000 امریکی فوجیوں میں سے قریب نصف کو واپس بلانے کے اعلان کے ایک ماہ بعد بحال ہوا ہے۔