قیام پاکستان سے اب تک پاکستانیوں نے مختلف دلخراش سانحات،اندوہناک حادثات اور تلخ تجربات کاسامنا کیا،سانحہ ساہیوال بھی ان میں سے ایک ہے۔ سات دہائیوں میں متعدد قومی سانحات سیاست کی نذر ہو گئے کیونکہ ہمارے سیاستدان اپنے معمولی مفادات کیلئے ریاست کے ساتھ بھی سیاست کرجاتے ہیں۔پاکستان میں حادثہ یا سانحہ رونما ہونے کے بعد سوشل میڈیا کی حدتک طوفان اٹھ کھڑاہوتا ہے مگرچنددنوں یا مہینوں بعد کسی کویادتک نہیں رہتاکیونکہ وہ نئے موضوعات پرہونیوالی بحث میں شریک ہوجاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے انفرادی اوراجتماعی رویوں میں دن بدن منفی عنصر کاغلبہ ہوتاجارہا ہے،لوگ اصلاح کی نیت کے تحت دوسروں پرتعمیری تنقید سے زیادہ ان کی توہین کرناپسندکرتے ہیں۔سوشل میڈیا نے ہرعمر کے پاکستانیوں کو شتربے مہار بنادیاہے،گالیاں ہرگز آزادی اظہار نہیں ہیں۔
بانیان پاکستان نے پاکستان کواسلام کی تجربہ گاہ قراردیا تھا مگر ان کے بعد نااہل سیاسی قیادت نے مادروطن کو تختہ مشق بنالیا۔عہدآمریت ہو یا دور جمہوریت، عوام کیلئے یہ دونوں نظام بوجھ کے سواکچھ نہیں کیونکہ وردی پوش آمر اورجمہوری فرعون ”جمہور”کابدترین استحصال کرتے رہے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی قیادت کابنایاہوا آئین بھی عوام کی بجائے اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے،18ویں ترمیم بھی حکمران طبقات کومزید طاقت دینے کیلئے بنائی گئی تھی،اس پرنظرثانی ناگزیر ہے۔
صوبائیت اورمنافرت ریاست کیلئے زہرقاتل ہے،صوبائی خودمختاری کے علمبرداروں نے اٹھارویں ترمیم کے بل پروفاق میں نفاق کابیج بویا ۔ بابائے قوم نے انتھک جدوجہد سے مسلمانوں کیلئے ایک نظریاتی ریاست بنادی مگر ان کے بعدآنیوالے ارباب اقتدارواختیار اداروں کی مضبوطی کیلئے تعمیری کرداراداکرنے کی بجائے انہیں یرغمال بنانے کے درپے رہے ۔ہمارے حکمران اپنے اقتدار کے دوام اوراستحکام کیلئے ایک سازش کے تحت ریاستی اداروں کوکمزورکرتے رہے تاہم پاک فوج کادم غنیمت ہے جوسیاستدانوں کی پے درپے سازشوں کے باوجودسیاسی مداخلت سے آزاد ہے ،عوام پولیس کوپاک فوج کی ماننددیکھنے کے خواہاں جبکہ ماضی کی حکمران اشرافیہ پاک فوج کوپولیس کی طرح اپنے گھر کی باندی بنانے پربضد تھی ۔ تھانہ کلچرمیں تبدیلی کیلئے پولیس کوبھی رینجرز کی طرح پاک فوج کے کنٹرول میں دے دیاجائے،پی ایس پی آفیسرز”پیراشوٹرز” ہیں ،انہیں رینکرزکاوجودبرداشت نہیں ۔جس طرح پاک فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے شروعات ہوتی ہے اس طرح پولیس میں بھی سب انسپکٹر یاانسپکٹر سے آغاز کیاجائے،پولیس میں دوطبقات کے ہوتے ہوئے اس میں اصلاحات کامیاب نہیں ہوں گی ۔تبدیلی کے علمبردار حکمران یادرکھیںایک ماہ بعدآئی جی تبدیل کرنے سے تھانہ کلچر میں تبدیلی نہیں آئے گی ،پی ٹی آئی کے قائدین خودتواپنے اقتدار کے دوام کیلئے مہلت اورآئینی مدت کی بات کرتے ہیں لیکن پروفیشنل اورزیرک محمدطاہر سے پنجاب پولیس کی کمانڈایک ماہ بعدواپس لے لی گئی۔
اگر محمد طاہر کو مناسب وقت دیاجاتا تویقینا وہ اورطاہرخان درانی بہت ڈیلیور جبکہ پروفیشنل اورمستعد پولیس کاخواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے دوررس اصلاحات کرتے ۔وزیراعظم عمران خان کیلئے” بزدار”نہیں ”بردبار” افرادکی صحبت سودمندرہے گی ،ایک ہزاربزداربھی ایک بردبار کامتبادل نہیں ہوسکتے ۔سردارعثمان بزدار پی ٹی آئی اورپنجاب کیلئے بوجھ کے سواکچھ نہیں۔ پی ٹی آئی کے دورمیںپنجاب پولیس میں برادری ازم اورپسندناپسند کی بنیاد پرتقرریاں تھانہ کلچر کامزید بیڑاغرق کردیں گی۔لاہور کے سابق انتھک سی سی پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے دورمیں تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے کی جانیوالی موثراورقابل قدر اصلاحات کے ثمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا،انہوں نے پولیس اورعوام میں فاصلے مٹانے کیلئے جہاں کئی تعمیری تجربات کئے وہاں ا نہوں نے اپنے آفس میں آنیوالے شہریوں کیلئے چٹ سسٹم بھی ختم کردیا تھاجوان کے جانے کے بعددوبارہ رائج کردیاگیاہے۔کیپٹن (ر)محمدامین وینس تک پہنچنااوران تک اپنی بات پہنچانابہت آسان تھاجواب بہت دشوار ہے۔ان دنوںلاہور کے دونوں ڈی آئی جی حضرات کے دفاتر کاراستہ ان کے پی آراوکے آفس سے ہوکرجاتا ہے،ان کے نزدیک میڈیاسے وابستہ لوگ اچھوت ہیں۔
ساہیوال شہر کے نزدیک شاہراہ پر بیگناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے باوردی محافظ زندانوں جبکہ پولیس کلچر کا کچرابنانیوالے جعلی مسیحا ایوانوں میں ہیں ۔سانحہ ساہیوال سی ٹی ڈی اہلکاروں کی عجلت،مجرمانہ غفلت اورپیشہ ورانہ مہارت کے فقدان سمیتOverc onfidence کا شاخسانہ ہے تاہم یہ خونریزی کسی عداوت کانتیجہ ہرگز نہیں تھی ،اسے المناک حادثہ بھی کہاجاسکتا ہے۔اب تک ماہرین اورناقدین کی طرف سے آپریشن کے طریقہ کارپرجوسوال اٹھائے گئے وہ درست ہیں جبکہ شہریوں کاغم وغصہ فطری ہے ۔جس طرح آپریشن کو مس ہینڈل کیا گیا اس طرح کچھ وفاقی اورصوبائی وزراء بالخصوص فیاض الحسن چوہان اس ایشوکومسلسل مس ہینڈل کررہے ہیں۔
تاہم بدقسمت خاندان جس کارمیں سوارتھااس کے ڈرائیورذیشان بارے اداروں کے موقف بلکہ اصرار کو مستردنہیں کیاجاسکتا،اس سلسلہ میں سچائی تک رسائی کیلئے جے آئی ٹی کی فائنل رپورٹ کاانتظارکرناہوگا۔ اس آپریشن میں جام شہادت نوش کرنیوالے مہرخلیل ،اس کی اہلیہ اوربیٹی کی بیگناہی سے کسی کو انکار نہیں ، اس سانحہ پرآسمان بھی تین روزتک روتا رہا جبکہ پاکستان سمیت دنیا کا ہر باضمیرانسان ابھی تک حالت سوگ میں ہے۔یتیم بچوں کی ویران اورسوالیہ نگاہوں نے قومی ضمیر کو جھنجوڑ دیا ہے ۔ماں باپ کی شہادت کابیٹاعینی شاہد ہے ،عوام کولگتا ہے تقدیرنے تین بچوں کوزندہ بچالیاہے مگرمیں سمجھتاہوںوہ توزندگی بھرپل پل مرتے رہیں گے،ان کے احساس محرومی کاکوئی مداوانہیں کرسکتا۔قومی ضمیر پرجوحالیہ زخم لگا ہے وہ مدتوں تک تازہ رہے گا۔اس سانحہ میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکارو ں کے بیانات تضادات کامجموعہ جبکہ ان کیخلاف چارج شیٹ کیلئے کافی ہیں۔
ایک جھوٹ کوسچ ظاہرکرنے کیلئے ہزاربارجھوٹ بولناپڑتا ہے مگراس کے باوجودسچائی نہیں چھپتی۔اگرڈرائیورذیشان کے بارے میں سی ٹی ڈی کاموقف درست بھی مان لیا جائے تواس صورت میں بھی مہرخلیل ،اس کی اہلیہ اوربیٹی کے خون سے ہولی کھیلنے کاکوئی جواز نہیں تھا۔اگرسی ٹی ڈی اہلکارآپریشن کے دوران ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرتے توبیگناہ اورقیمتی جانوں کاضیاع نہ ہوتا ۔دنیا بھرمیں شرپسندعناصراوردہشت گرداپنے بچائوکیلئے”ہیومن شیلڈ ” کااستعمال کرتے ہیں اوراس صورتحال میں کوئی ادارہ آپریشن نہیں کرتا یعنی ایک ہزاردہشت گردوں کے درمیان اگر ایک بیگناہ شہری موجود ہوتواس صورت میں کسی پرتشدد ایکشن یاآپریشن کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ امید ہے مہرخلیل ،اس کی اہلیہ اوربیٹی کاخون ناحق رائیگاں نہیں جائے گا۔بے رحم قاتل انجام بدکے مستحق ہیں،انہیں کیفرکردارتک پہنچاناریاست کافرض اوراس پرقرض ہے۔
قدرت کے سوادنیا کی کوئی طاقت یتیم بچوں سمیت غمزدہ خاندان کے گہرے زخم پر مرہم نہیں رکھ سکتی۔ریاست کو ماں کہاجاتا ہے مگرریاست یتیم بچوں کوممتا نہیں دے سکتی ، انسانوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تاہم ریاست نے مہرخلیل کے یتیم بچوں کی کفالت کیلئے جوکیا وہ مستحسن ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں حساس موضوعات کوبھی سیاست کی بھٹی میں جھونک دیاجاتا ہے۔افسوس متحدہ اپوزیشن والے سانحہ ساہیوال پربھی سیاست چمکانے سے باز نہیں آئے۔ جیالے اورمتوالے سانحہ ساہیوال کیخلاف احتجاج کی آڑمیں آسمان سرپراٹھائے ہوئے ہیںمگر پیپلزپارٹی کے اپنے دوراقتدارمیں ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے فرزند اوربینظیر بھٹو شہید کے بھائی میرمرتضیٰ بھٹو کوشہرقائد میں گاڑی کے اندر ان کے گھر کی دہلیز پر گولیاں مارکر شہید کردیا گیاتھا۔میرمرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی اورنہ جوڈیشل کمشن بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
ماڈل ٹائون میں بھی بیگناہ شہریوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے سانحہ ساہیوال پرمگر مچھ کے آنسوبہارہے ہیں،سانحہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونیوالی ایک ماں کی بیٹیوں کے بین اوران کی آہیں کون فراموش کرسکتا ہے۔جس وقت سانحہ ساہیوال کاسوگ منایاجارہا تھا اس وقت شہر لاہورسے قوم کی ایک بے بس مقتول بیٹی کاجنازہ بھی اٹھایا گیا جس کے ناتواں وجودپربہیمانہ تشدد کرتے ہوئے اسے قتل کردیا گیا اورسفاک قاتل نے اپناگناہ چھپانے کیلئے اس بدنصیب کی نعش سمن آباد کے گندے نالے میں پھینک دی۔قوم کی اس بیٹی نے غلطی سے اپنے آقائوں میں سے کسی ایک کے سالن میں اپناہاتھ ڈال دیا تھااوراس ”گناہ کبیرہ” کی پاداش میں اسے جان سے ماردیاگیامگراس سانحہ پرکسی اپوزیشن لیڈرکابیان آیا نہ سوشل میڈیا پرشورمچایا گیاکیونکہ سبھی سقراط اوربقراط سانحہ ساہیوال کو بنیاد بناکرپی ٹی آئی کی حکومت اورپنجاب پولیس کامیڈیاٹرائل کرنے میں مصروف تھے۔جولوگ سانحات پرسیاست چمکاتے ہیں یقیناان کے چہرے روشن نہیں ہوسکتے بلکہ ان کی اندرونی میل نے ان کے چہروں کوبھی سیاہ کر دیا ہے۔
سانحہ ساہیوال کوسیاست میں گھسیٹ کرمتاثرہ خاندان کی کوئی خدمت نہیں کی گئی۔عنقریب قاتل انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تاہم سی ٹی ڈی نے مجموعی طورپرمتعدد کامیاب آپریشن کرتے ہوئے کئی دہشت گردوں کوجہنم واصل کیا ہے لہٰذاء پنجاب پولیس کے اس مستعد شعبہ کامیڈیا ٹرائل مناسب نہیں۔ سی ٹی ڈی ،سی آئی اے سمیت پولیس کے دوسرے شعبہ جات سے وابستہ جو بھی اہلکارقانون شکنی کاارتکاب کریں گے انہیں قانون کے شکنجے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکتی ۔تاہم کسی ناخواشگوار اوردلخراش واقعہ کوبنیاد بناکرریاستی اداروں کے وجودپرسوال اٹھائے جاسکتے ہیں اورنہ ان کی مجموعی طورپرموثر کارکردگی سے انکار کیاجاسکتا ہے۔
بروقت انصاف کی فراہمی کیلئے فوجی عدالت کوبھی ایکسٹینشن دی جائے۔ پاکستان میں سکیورٹی اداروں کیخلاف زہراگلنا ایک فیشن بن گیا ہے،ہم سی ٹی ڈی سمیت پولیس کے شہداء اوران کے یتیم بچوںکوکیوں بھول جاتے ہیں ۔مال روڈ پرڈی آئی جی اورایس ایس پی سمیت متعدداہلکاروں نے فرض کی بجاآوری کے دوران جام شہادت نوش کیا ،لاہورہائیکورٹ کے نزدیک بم دھماکے نے پولیس اہلکاروں کے وجودبوٹیوں کی مانند بکھیردیے تھے۔کوٹ لکھپت سبزی منڈی کے مقام پرہونیوالے بم دھماکے نے بھی کئی پولیس اہلکاروں کوشہیدکردیا تھا۔وہ محافظ جواپنے بچوں کواللہ تعالیٰ کے سپردکرکے ہماری اورہمارے بچوں کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں انہیں یہ صلہ نہ دیاجائے ۔ساہیوال کی شاہراہ پربیگناہ شہریوں کے قتل میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاراس وقت قانون کی گرفت میں ہیں اوریقینا وہ شفاف انصاف کاسامناکریں گے لیکن ان کے گناہ کاملبہ سی ٹی ڈی سمیت پنجاب پولیس پرنہیں گرایاجاسکتا۔ کیا پولیس سمیت سکیورٹی فورسز کے بغیر معاشرے میں امن وامان برقراررہ سکتا ہے ۔ نااہل ،ناکام اوربدنام اہلکاروں پرتنقید سمیت ان کامحاسبہ کرناہماراحق ہے لیکن ریاستی اداروں کیخلاف منفی پراپیگنڈے کرنے کامینڈیٹ ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہرمعاشرے میں چورہوتے ہیں مگر کوئی معاشرہ چور نہیں ہوتا۔ کچھ صحافی بھی قلم فروش ہیں لیکن صحافت کوگالی نہیں دی جاسکتی۔ہمارے ملک میں کئی سیاستدان اچھے اورکچھ برے بھی ہیں مگرسیاست بری نہیں ہے۔ ہرادارے میں مذموم ارادے والے کچھ آفیسریااہلکار ضرورہوتے ہیں لیکن ان کے وجود سے ریاست اورمعاشرے کیلئے اس ادارے کی ضرورت و اہمیت میں کمی نہیں آ سکتی۔