بے حس، احساس سے عاری

Sahiwal Tragedy

Sahiwal Tragedy

تحریر : اے آر طارق

سانحہ ساہیوال رونما ہو چکا، بے گناہ افراد سی ٹی ڈی اہلکاروں کی ”مہربانیوں”سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ آگئی،خلیل فیملی بے گناہ،ذیشان دہشت گرد قرار،واقعے میں سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کو ذمہ دارقرار دیکر11 کوغیر محسوس انداز سے چھوڑ دیا گیا ہے۔اس سانحے کے حوالے سے ہلاک کیے گئے ذیشان کے کردارکے تعین کے لیے جے آئی ٹی کی جانب سے مزید وقت مانگ لیا گیا، اس کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے تمام ریکارڈمرتب کیا جارہا،،جو اسے دہشت گرد قرار دے سکے اوراس سانحہ میں معطل،عہدوں سے ہٹائے گئے افسران کو بحال اور پھنسے ہوئے ظالم پولیس اہلکاروں کی جان بخشی کا سبب بن سکے۔

تمام تر ثبوت، حقائق، گواہیاں،عوامی آراء خلاف مگراداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش،کوشش کیا،یہی ادارے تو اس سارے سانحہ میں ملوث اور اس کے ذمہ دار، حکومت اپنی نالائقی چھپا رہی،جے آئی ٹی سب کو بیوقوف بنائے، تمام ثبوت سامنے،جھوٹ چھپ نہ پانے،کچھ نہ ہونے،سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ایک مظلوم فیملی کے خون سے ہاتھ رنگنے پرمجرم قرار دینے کے بعد بچانے کی غرض سے اور ”شایدکہ رہ جائے کوئی بھرم”مرے ہوئے ذیشان کودہشت گرد ثابت کرکے سارا ملبہ اس پر ڈالنے کا ارادہ رکھتے،اس نے کون سا اب دنیا میں آکر کسی کو بتانا کہ کیا سچ اور کیا جھوٹ اور یہ کہ اصل کہانی کیا ہے؟۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں بندے کو مارنے کے بعددہشت گرد ڈکلیئر کیا جاتا،زندہ ہوتو انسان کہلاتا، پاکستان اکیلا ملک،جہاں دہشت گرد تو مشکل سے اور مار کر پکڑے جاتے اور گلبھوشن جیسے خطرناک جاسوس آسانی سے بغیر جدوجہد کیے زندہ دھر لیے جاتے،اس ملک کا نرالا ہی دستور ہے۔

گہنگار سزا پاتا اور ظالم ظلم ڈھاتا،شریف سرعام ذلیل ہوتا اور بے غیرت عزت پاتا،حوا کی بیٹی عزت لٹ جانے پریا مار دئیے جانے پر ظلم کی تصویر بنی چینل کی ہیڈلائنز اور اخبار کی زینت بنتی اور مجرم فرار ہوجاتا،اس ملک کے کیا کہنے،معصوم بچیاں جنسی زیادتی کا شکار اور بہت ساری برباد ہوجاتیں اور وفاقی محتسب اعلیٰ کی رپورٹ کی روشنی میںاس ملک کے رہبر ،رہنما،محافظ،انصاف کے ٹھیکیدار،ان کو انصاف دینے کی راہوں میںحائل رکاوٹ بنے نظر آتے،ظلم بہت زیادہ اور انصاف ناپید،مظلوم آہیں اور دہائیاں دے رہا اور ظالم کی رسی دراز،ظلم عام اور انصاف کا حصول تکلیف دہ،وجہ وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار،اپنے ماتحتوں کو دبائے ہوئے،ظالم حکمران اور محکوم رعایا اور پھر یہ کہ اگر کبھی انصاف ملنے کی امید نظر بھی آرہی ہو تو پاکستان میںپراسیکیوشن کا نظام ناقص ہے، ایف آئی آر کے اندراج سے ہی جھوٹ کاآغاز ہو جاتا ہے۔

جھوٹے گواہ ڈالے جاتے ہیں،سچے گواہ جان کے ڈر سے بھاگتے ہیں ،عدالت میں وکیل حضرات کی اکثریت مقدمے کو لمبا کرتی ہے،جج صاحبان بھی تاریخوں پر تاریخیںڈالتے چلے جاتے ہیں،مظلوم فریق بھی بے پناہ پیسہ خرچ کرکے کئی سالوں کے بعدفیصلے کی دہلیز پرفیصلہ سننے کے دن کوسامنے پاتا ہے،یہ ظلم نہیں تو کیا ہے؟۔دن کی روشنی سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بے گناہ خاندان کو غلط اطلاع کی بنیاد پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور اس پر بجائے اس کے کہ تمام تر حقائق سامنے آ جانے پر ان اہلکاروں کوان مظلوم خاندان کی طرح ہی، انہی لوگوں کے سامنے ،جن کے سامنے ایک مظلوم خاندان کو مار کر انصاف کی ہار ہوئی، الٹا لٹکا کر، گولیوں سے چھلنی کرکے،انہی جگہوں پران کی قبریں بنا کراس جگہ کو عبرت کی جاء کے طور پران کی سمادھی بنادی جائے، جس میں معزز شہریوں پرظلم کرنے والے اور قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کے لیے ایک سبق ہو،مگر اس ملک میں تو الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے کہ بجائے اس کے کہ مجرمان کا تعین ہو جانے پر،انصاف کی فراہمی میں تاخیر کرنے کی بجائے سزا دی جائے۔

ان کوٹائم دیکر،مختلف حیلوں بہانوں سے بچانے کی کوشش کی جارہی،جس میں حکومت و ریاستی ادارے اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن حد تک حصہ لے رہے اور اس کوشش میں ہیں کہ اس ستم کو،جو مظلوم خاندان پر دن دیہاڑے ڈھایا گیا،حرام سے حلال کرکے،ذیشان کو دہشت گرد بنا کر،گہنگار ہوتے ہوئے بھی ثواب لوٹ لیں،سر دھڑ کی حد تک اس کوششوں میں ہیں،جس میں ان کے ساتھ ”نواں آیاں اے سوہنیا” پرانا ہونے کی خواہش میںساتھ نبھا رہا اوراس کوشش میںڈھٹائی اور بے شرمی کی حد تک ”ریاستی طاقت” کے بل بوتے پر کامیاب ہونے بلکہ ہوئے پڑے”سب اچھا ہوا،بس بے گناہ خاندان مارا گیا” کی رپورٹیں دے رہے اور غیر محسوس طریقے سے چھوڑے جانے کے اشارے بھی ۔پولیس میں موجود ایسی کالی بھیڑیں،جو عدلیہ کے فرائض بھی خود ہی اداکر دیتے ہیںاور جلاد بن کرسرعام فوراً سزا بھی دیتے ہیں،اکثرکانوں سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہوتے ہیں۔بے حس،احساس سے عاری۔۔

AR Tariq

AR Tariq

تحریر : اے آر طارق

03074450515
03024080369