سیاست ٹیسٹ میچ ہے اسے آپ 20اوورز کا میچ سمجھ کر نہیں کھیل سکتے۔اس میں آپ پہلی اننگز ٹھیک نہ کھیل پائیں تو اگلی اننگز پہ فوکس کر کے میچ میں کم بیک کیا جاتا ہے۔ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں ہیں ٹی وی چینلز ان دنوں جمعرات کا دن قیدی نمبر ’’4470 کے نام کرتے ہیں۔ جمعرات کی صبح سے جیل کے باہر رونق لگنا شروع ہوجاتی ہے کارکنان جمع ہوتے ہیں پارٹی قائدین آتے ہیں اپنے قائد سے ملتے ہیں اور کارکنان کو تسلیاں دے کر چلے جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف ملاقاتیوں سے حال چال پوچھنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں ملاقاتیوں میں کچھ جذباتی،کچھ سنجیدہ،کچھ دانا قسم کے رہنما ،صحافی اوردوست بھی شامل ہیں۔ جیل میں ملنے والے پوچھتے ہیں حالات کب ٹھیک ہوں گے تو میاں صاحب اپنے مخصوص لہجے میں تسلی دیتے ہوئے دعا کے لیے کہتے ہیں۔
میاں نواز شریف ہسپتال چیک اپ کے لیے آئے تو صحافیوں نے ان سے سوالات پوچھے مگر وہ خاموش رہے ،مریم نواز ٹویٹ کرتی ہیں مگر اب وہ گھن گرج باقی نہیں رہی۔پارٹی کارکنوں کے بعد اب عوامی حلقے میں بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ یہ خاموشی کب تک چلے گی؟۔ایسا لگتا ہے میاں نواز شریف اور مریم نواز اپنے چاہنے والوں سے مایوس ہیں انہیں معلوم تھا وطن واپسی پر ان کی منزل جیل ہوگی مگر زبردست پاور شونہ ہونااور پارٹی قیادت کا موقع محل کی مناسبت سے ’’کھڑاک‘‘ نہ کرنا انہیں اچھا نہیں لگا۔
الیکشن سے قبل اڈیالہ جیل میں ہونے والی ملاقات میں مریم نواز کے داماد راحیل منیرکی آواز ایک لمحے کے لیے اپنے ساس کے سامنے بلند ہوئی تھی۔ داماد نے شکوہ کیا تھا کہ اگر وہ پہلے ان کی بات مان لیتے تو آج انہیں اور ان کی پارٹی کو یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ اب بھی وقت ہے خاموشی اختیار کرلی جائے اگر انہوں نے اب بھی جارحانہ پالیسی جاری رکھی تو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز فرنٹ فٹ پہ کھیلنا چاہتی تھیں مگر والد کی گرتی صحت اور قید کی سختیوں نے ان کے خیالات کو تبدیل کردیا۔اب وہ قید میں نہیں ہیں مگر وہ اپنے والد کے لیے پریشان ہیں۔ ان کے سمدھی بین الاقوامی اور قومی سطح پر طاقت کے مراکز کے ساتھ جڑے ہونے کی بناء پر انہیں حالات اچھے ہونے کی نوید سنا چکے ہیں۔تاکید مگر صرف خاموشی کی گئی ہے۔
میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر پارٹی کے اعلی سطحی اجلاس میں سوائے فیصل آباد کے رانا ثناللہ کے کسی نے آگے بڑھ کر نہیں کہا’’ بس حکم لاؤ‘‘ مگر باقی نڈر رہنما اس بات پر اتفاق کرچکے تھے کہ الیکشن سے پہلے کوئی ’’ایڈوانچر‘‘ ان کی کشتی ڈبو سکتا ہے۔ اس پر لاہور کے رہنما نے آگے بڑھ کر شہباز شریف کو کہا ’’اس الیکشن میں میرا بہت کچھ سٹیک پر لگا ہوا ہے اس لیے ’’ائیرپورٹ ایڈوانچر ‘‘ سے دور رہنے میں ہی سب کی بھلائی ہے موصوف شاید الیکشن سے پہلے ہی اپنی طرف آنے والی مشکلات دیکھ چکے تھے۔
شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہبازاپنے بھائی ،والد اور تایا کے لیے خاصے فکر مند ہیں وہ لندن میں بیٹھ کر اہم لوگوں سے رابطے میں ہیں اداس ہوجائیں تو پاکستان سے اپنے قریبی احباب کو لندن بلا لیتے ہیں۔بڑے میاں صاحب کی رکاوٹیں کم کرنے کے لیے چودھری منیر سرگرم ہیں ۔مسلم لیگ ن کی صورتحال اندر سے بھی کافی گھمبیر ہے پارٹی قائد جیل میں ہیں ،پارٹی صدر جیل میں ہیں،پنجاب میں ا صل طاقت رکھنے والی پارٹی کو پنجاب میں لیڈ کرنے والا کوئی نہیں۔حالت یہ ہے کہ یوم تاسیس کے لیے مرکزی تقریب کا اعلان کیا گیا سوال اٹھا شریف خاندان سے کون تقریب میں جائے گا کہیں سے آواز آئی مریم حقدار ہے کسی نے کہا اصل جنگ تو حمزہ شہباز کر رہا ہے۔
حالات اس سطح پر پہنچے کہ اتنی بڑی پارٹی کو اپنا یوم تاسیس لاہور کے علاقے ’’نصیرآباد‘‘ تک محدود کرنا پڑا اس میں بھی کسی مرکزی رہنما کو شرکت کی توفیق نہ ہوئی۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے مریم بھی آزاد ہیں اور حمزہ بھی مگر دونوں کے والد قید میں بیمار ہیں۔ دونوں اپنے بھائیوں سے ملاقات نہیں کرسکتے ۔ مریم نواز بار بار کہہ رہی ہیں کہ ان کے والد کی صحت کے حوالے سے سہولتیں ناکافی ہیں اگر یہ موقف ٹھیک ہے تو اس پرواضح ردعمل سامنے کیوں نہیں آرہا۔اس معاملے میں لیڈر بیان بازی کرتے رہے مگر لیگی کارکن عدیل خان نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اپنے آپ کو چھریاں مار لیں ۔کارکنان پارٹی لیڈر شپ کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر پارٹی لیڈر شپ کسی اور طرف دیکھ رہی ہے۔
میاں نوازشریف کوان کے مخلص کارکن خواجہ سعد رفیق نے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میاں صاحب پنجابی سوچتے ہیں کہ چودھری پھڑیا گیا تے فیر کی رہ گیا(اگر چودھری ہی پکڑا جائے تو پیچھے کیا باقی بچتا ہے) اب نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی چودھراہٹ بچانی چاہیے چاہے اس کے لیے کتنی ہی طویل خاموشی کا خراج ادا کرنا پڑے۔