پاکستان کی اساس اندرونی بیرونی حالت پر مشتمل کتاب مشرقی اُفق کتاب ”مشرقی اُفق” پاکستان کی اساس ، اندرونی اور بیرونی حالات پر مشتمل کتاب ہے۔کتاب میں ان ہی حالت پر تجزیہ کیا گیا ہے۔ مسلمانان ِبرصغیر نے کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر، بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوری جد و جہد کے ذریعہ، اُس وقت کی دو بڑی قوتوں، یعنی آدھی دنیا پر قائم کیمونسٹ تحریک اور باقی دنیا پر قائم سرمایہ دارانہ نظام ِ حکومت اور اس کے ذیلی حمایتی ،خاص کر قوم پرست ہند وسماج کے ساتھ مکالمے میں کامیابی کے بعد حاصل کیا تھا۔
کیمونسٹ تحریک سویٹ یونین سے آگے بڑھ کر مشرقی یورپ اور وسط ایشاء کی مسلمان ریاستوں کو عثمانی ترکوں سے فتح کرتا ہوا، پاکستان کے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان اور سویٹ یونین کی سرحد دریائے آمو تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا اَگلا پڑائو اس کے بانی ایڈورڈ کے ڈاکٹرائن کے مطابق گرم پانیوں تک آنے ، یعنی افغانستان اور پاکستان کے راستے خلیج پر قبضہ کرنا تھا۔ اسی لیے سویٹ یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اللہ کا کرنا کہ بعد میں فاقہ مست افغانیوں کے ہاتھوں اِسے شکست ہوئی، سویٹ یونین ٹوٹ گیا اور مشرقی یورپ ،دیوار برلن اور چھ اسلامی ریاستیں سویٹ یونین سے آزاد ہوئیں۔
گو کہ سرمایا دارانہ نظام کا سرخیل برطانیہ جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے سکڑنا شروع ہو چکا تھا۔ لیکن پھر بھی سرمایا درانہ نظام یورپ اور امریکا میں اپنی شان و شوکت کے تحت کامیابی سے دنیا پر حکمرانی کر رہا تھا۔ امریکا نے مسلمان حکومتوں پر اپنے پٹھوحکمران بٹھائے ہوئے تھے۔ کہیں مارشل لا لگا کر اور کہیں جعلی الیکشن اور دھاندلی سے نہاد جمہوریت کے نام پر، پٹھو مسلمان حکمرانوں کے ذریعے مسلمانوں پر حکومت کر رہے تھے۔ ابھی ابھی اُسی صدی ،١٩٢٤ء میں اِن صلیبیوں نے عثمانی ترکی مسلمان خلافت کوختم کرنے کے کمال اتاترک کے ذریعے سیکولر حکومت قائم کر دی تھی۔ اور مسلمان دنیا کو کئی راجوڑوں میں تقسیم کرنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اب دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گا۔یہ کب چاہتے تھے کہ برصغیر میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو۔
متشدد قوم پرست ہندو بنیا سامراج بھی اس پرراضی نہیں تھا کہ ان کی سرزمین( بقول ان کے) پر اسلام کے نام پر توحید کی حکمرانی پھر سے قائم ہو۔ جبکہ مسلمانوں نے اقلیت ہو کر اپنی عدم تشدد، پر امن، برداشت اور انصاف کی بنیاد پر ایک بڑی ہندوآبادی پر کامیابی سے ایک ہزار سال سے زیادہ حکمرانی کی تھی۔ پہلے پہل برطانیہ سے نجات کے لیے ہندو اور مسلمانوں نے مل کر آزدای کی تحریک چلائی تھی ۔ مگر برٹش دور میں ١٩٣٦ء کے الیکشن میں کامیابی کے بعد ہندوئوں نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی اعلانیہ پالیسی اختیار کی۔ جس سے مسلمان لیڈر شپ نے ہندوئوں کے عزاہم کو بھانپ لیا کہ وہ اکثریت کی بل بوتے پر مسلمانوں پر حکومت کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
کانکریسی مسلمان، ہندوئوں کے قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے فلسفہ کی جال میں پھنس گئے اور پاکستان کی مخالفت کر کے سنگین تاریخی غلطی کی تھی ۔ جب کہ تحریک پاکستان کے دوران مولانا سید ابو اعلیٰ مودددی نے مسئلہ قومیت پر اپنی شہر آفاق مضامین لکھ کر ثابت کیا تھاکہ قومیں اوطان سے نہیں، قومیں نظریات کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ مسلمان کہیں بھی ہوں ایک قوم اور ملت ہیں۔یہ مضامین اب بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔
علامہ اقبال نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ:۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولۖ عاشمی
کانگریسی مسلمانوں نے تاریخی غلطی کرتے ہوئے ، علامہ اقبال ، قائد اعظم دوقومی نظریہ اور مولانا موددی کے قومیں اوطان سے نہیں بلکہ نظریات کی بنیاد پر بنتی ہیں کی مخالفت کی تھی۔ بلکہ دیو بند کے مولانا حسین احمد مدنی نے قومیں اوطان سے بنتی ہیں پر ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے خوابوں کی تعمیل کرتے ہوئے ،قیام پاکستان کا مقدمہ لڑا اور کہا کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان بستے ہیں۔ قائد اعظم نے ٢٣ مارچ١٩٤٠ء لاہور میں فرمایاتھا۔”ہم مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں۔ہمارا کلچر،ہماری ثقافت ،ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا،ہمارا معاشرہ سب کچھ ان سے مختلف ہے”۔دونوں قوموں کے ہیرو مختلف ہیں۔
ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔اس لیے برطانیہ کوہندوستان چھوڑتے ہوئے اقتدار ان بڑی دو قوموں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ پھر قائد اعظم کے ودقومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم ہوئی۔ یہ قائد اعظم کی اس وقت کے بڑے نظاموں، کیمونسٹ، سرمایہ درانہ نظام اور قوموں اوطان سے بنتی ہیں کو جمہوری طریقے سے مصنف نے ان حالات پر تفصیلی بحث کی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جلد ہی اللہ نے قائد اعظم کو اپنے پاس بلا لیا۔قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کے جانشینوں نے پاکستان کی اساس کا حق ادا نہیں کیا۔ جس اساس پر پاکستان بنا تھا اس کی تکمیل نہیں کی۔ نہ وقت پر پاکستان کا اسلامی آئین بنایا اور نہ ہی پاکستان کی اساس پر ادارے قائم کیے۔ ١٩٥٦ء کا آئین بنا بھی تو ڈکٹیٹر ایوب خان نے اِسے منسوخ کر دیا۔
مسلم لیگ وزارتوں کے پیچھے لگ گئی۔ اور پاکستان کے ازلی دشمن وزیر اعظم بھارت پنڈت جوہر لال نہرو صاحب نے طنزاً کہا تھا کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں وزارتیں بدلتی ہیں۔ پھر پاکستان کی اسلامی اساس کے خلاف قومتیوں کو کھل کر کام کرنے دیا ۔ جس پر دشمنان ِپاکستان، سندھ میں جی ایم سید،الطاف حسین، سرحد میں سرحدی گاندھی غفار خان اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان جیسے قوم پرستوں نے پاکستان کو اپنی اصل اسلامی منزل سے دُور کر کے قومیتوں کے جھگڑوں میں اُلجھا دیا۔ قومیت کی ہی بنیاد پر شیخ مجیب نے ١٩٧٠ء کے پاکستان کی اساس کے مخالف متشدد قومیت کی بنیاد پرالیکشن جیت کر اقتدار کے حصول کی جنگ پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی فوجی کی مدد سے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔
کتاب ”مشرقی اُفق” میں اس واقعات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اساس یعنی نظریہ پاکستان اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی، جہادی ریاسست قائم کرنے کی سیای و دینی پارٹیوں کی جد وجہد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس پر بھی بات کی گئی ہے کہ جب تک پاکستان میں تحریک پاکستان جیسی تحریک دوبارہ بھر پاہ نہیں کی جاتی اس وقت تک پاکستان کی اساس کے مطابق پاکستان کی تعمیر ممکن نہیں۔ نہ کشمیر آزاد ہو سکتا ہے اور نہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی پشی بانی ہو سکتی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی ۔ اس بنیاد پرمتشدد اور دہشت گرد موددی سرکار نے عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔
کبھی گائے کی نام نہاد محبت اور کبھی مندروں پر مساجد کی تعمیر کے بھونڈے نظریات پر عمل پیرا متشدد ہندو مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اِن سارے مسائل کا حل پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں پوشیدہ ہے۔ کتاب” مشرقی اُفق” میں نئی تصنیف شدہ کتابوں کے مصنفوں کے نظریات پر بھی مکمل گرفت کی ہے۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی پاکستان کے ایک صوبے کشمیر پر ذبردستی قبضہ اور کشمیر میں جاری تکمیل پاکستان کی جد وجہد اور آزادی کشمیر کے لیے کن طریقوں اور راستوںپر عمل کر کے ہندو بنیا سے نجات مل سکتی ہے، پر بھی پر تجزیہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے دوست نما دشمن امریکا کے پاکستان بارے کردار پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔ امریکا اور مغرب کواسلامی ایٹمی و میزائل ٹیک نا لوجی والا پاکستان ہر گز برداشت نہیں۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بھارت اور افغانستان کو استعمال کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب پاکستان میں فوج اور سیاست دان ایک پیج پر ہیں اور امریکا کو کہہ دیا ہے کہ پاکستان اب کسی کے لیے جنگ نہیں لڑے گا۔ کتاب” مشرقی اُفق” میں ان تمام حالت پر سیر حاصل بحث، تجزیہ اور حل پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی اساس پر معلومات سے بھر پور ہے۔