جبری گمشدگی کے مقدمات سول عدالتوں میں: کیا فرق پڑے گا

Families of Missing Persons

Families of Missing Persons

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری گمشدگی کو قابلِ سزا جرم بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا کئی حلقے خیر مقدم کر رہے ہیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق نہ تو اس سے یہ معاملہ ہوگا اور نہ ہی گمشدہ افراد کے رشتے داروں کو سکون ملے گا۔

حکومت نے کابینہ کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر کسی کو زبردستی غائب کرے گا تو اس کا مقدمہ سول عدالتوں میں چلایا جائے گا۔ کئی تجزیہ نگاروں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرنناڈو اسپنوزا کے دورے کے بعد حکومت کی طرف سے اس فیصلے کا آنا خوش آئند ہے۔

ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن ڈاکڑ مہدی حسن کے خیال میں اس فیصلے کے پیچھے بیرونی دباؤ بھی ہو سکتا، ’’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا اور ان کو کئی افراد نے سوشل میڈیا کے ذریعے پیغامات بھیجے تھے کہ وہ اس مسئلے کو حکومتِ پاکستان کے ساتھ اٹھائیں۔ تو ممکن ہے کہ وہ دباؤ بھی کام آیا ہو لیکن ہم اس کو مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ کم از کم اب گمشدہ افراد کے رشتے دار مقدمات تو درج کر اسکیں گے۔ کسی حد تک ان کی تسلی ہوگی۔‘‘

مہدی حسن کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں پر الزام ہے کہ وہ اس میں ملوث ہیں اور ان کے خیال میں ان اداروں کو ان الزامات کا سامنا کرنا چاہیے اور اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہیے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گمشدہ افراد کی تعداد تین سو سے کچھ زیادہ ہے لیکن ایچ آر سی پی کے خیال میں یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔

بلوچ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ایسے افراد کی تعدا د بیس ہزار سے زیادہ ہے لیکن اس دعوے کو کئی غیر جانبدار ادارے قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے۔
حالیہ ہفتوں میں گمشدہ افراد نے کوئٹہ میں بھر پور متعدد سرگرمیاں کر کے ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی توجہ حاصل کی۔ بلوچ سیاست دان اختر مینگل نے بھی گمشدہ افراد کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالے۔

پی ٹی آئی کے خیال میں حکومت اب اس حل کی جانب جا رہی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کے خیال میں پی ٹی آئی اس مسئلے کو حل کرنے میں بہت سنجیدہ ہے، ’’ابھی ہم نے صرف فیصلہ کیا ہے اور اب ہم ترمیم لے کر آئیں گے۔ ہمیں اس مسئلے کی نزاکت کا احساس ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے ممالک کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں اور وفاقی حکومت نے متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے کر ہی اتنا بڑا فیصلہ کیا ہوگا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔‘‘

دوسری طرف ناقدین کے خیال میں ملک کے کسی ادارے میں اتنی جرات نہیں کہ وہ طاقتور خفیہ اداروں کا احتساب کر سکے۔ جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں رونما ہوئے ہیں۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے صنعت و پیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں اس فیصلے سے جبری گمشدگی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

درانی کے مطابق، ’’مجھے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔ الزام یہ لگتا ہے کہ اس میں ادارے ملوث ہیں، تو کیا عدالتیں جرنلوں کو سزا دیں گی۔ میرے خیال میں اگر کوئی پولیس یا دوسرا بندہ کسی کو اٹھا لے گا تو اس کو سزا ہوجائے گی لیکن طاقتور حلقوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ یہ صرف ایک دکھاوا ہے۔ اگر ادارے چاہیں تو کل اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں، وہ کہہ دیں کہ وہ کسی کو نہیں اٹھائیں گے تو کوئی غائب نہیں ہوگا۔‘‘

گمشدہ افراد کے لواحقین بھی اس خبر پر کوئی بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے، جن کے رشتے دار لاپتہ ہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کوبتایا، ’’بلوچستان سے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں لیکن سزا دینا تو دور کی بات ایف آئی آر درج کرانے کے لیے رشتہ داروں کو دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ صرف چند سو ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں وہ بھی نا معلوم افراد کے خلاف۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ وہ نامعلوم کون ہیں۔ تو سزا تو دور کی بات ہے، جبری طور پر گمشدہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر بھی نہیں درج ہو سکتی تو انہیں سزا کیا ملے گی۔‘