بعض دفعہ ایک ہیرے کی قیمت اتنی ہو جاتی ہے کہ ایک وسیع و عریض پہاڑ بھی اتنا بیش قیمت نہیں ہوتا۔ماہیت پر نہ جائیے کہ وہ کتنی ہے بس اس کی چمک، خوبصورتی، کشش اور مول کو دیکھئیے۔بعض ہیرے بھی انمول ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں۔خریدنا تو درکنار یہ دیکھے بھی نہیں جا سکتے۔
ایسا ہی ہیرا “سرخاب” کا عرفان جاوید ہے۔ ایک ایسی تحریر جو اپنے اندر ادب کا سمندر سموئے ہوئے ہے ۔ پڑھتے ہوئے آپ لمحہ بھر بھی توجہ بانٹ نہیں سکتے کیونکہ لمحات و واقعات الفاظ کی فلم کی طرح چلتے جاتے ہیں اور آپ کوئی لمحہ کھونا نہیں چاہتے۔ پاک ٹی ہاؤس کے بعد اگر کسی شخص نے ادب اور اس سے لگاؤ رکھنے والوں کو جگہ دی ہے تو وہ احمد ندیم قاسمی صاحب مرحوم کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
ادیب، شاعر، فلسفی ایک عجیب سے خبط میں مبتلا رہتے ہیں ۔ کبھی یہ رشک بن جاتا ہے کبھی تنہائی، حسد، طمع، شہرت، اور واہ واہ سے چلتا ہوا تنقید کی دہلیز پر قدم رکھ دیتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کے حالات و واقعات کو کھنگالیں تو لکھاری چاہے وہ کسی بھی میدان کا ہو مفلوک الحال ہی رہا۔ حبیب جالب، منٹو، جون جی، ساغر صدیقی ہوں یا پھر فیض صاحب، پروین شاکر، منشا یاد اور لا تعداد نام۔ سب نے یہ آگ کا دریا ڈوب کے پار کیا۔ کچھ کنارے لگے کچھ کا راستے میں سانس پھول گیا اور دم توڑ گئے۔ زیادہ دور نہ جائیں آج ہی کو دیکھ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
سرخاب کے اندر عرفان جاوید صاحب نے کرداروں کو انگلی پکڑ پکڑ کر چلایا ہے۔ ذاتی زندگی تک رسائی اور پھر تحریر و بیان کے لیے جس ولولے، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر انسان میں موجود نہیں ہوتا۔یہ خداداد صلاحیت ہے ۔ فقرے تول تول کر ایک طرزِ سنگیت کی طرح الفاظ کے ڈیم پر سے بہائے گئے ہیں اور ان کے پڑنے سے تخیل کی ٹربائن سے ادب کی طاقت نے جنم لیا ہے اور ادب ہی کو روشن کیا ہے۔
سرخاب جیسی تحریر نے ادب کے ایک عظیم باب کو کسمپرسی کی سوگوار فضا میں زائل ہونے سے بچا لیا ہے۔سرخاب نے ادب کی عدالت میں عینی شاہد اور گواہ کا کردار انجام دیا ہے ۔
اس باکمال تحریر پر تحسین عرفان جاوید صاحب جیسے منجھے ہوئے انسان، لکھاری، افکاری، کرداری، اور ادب شناس کا حق ہے اور یہ حق اس نئی نسل کے لکھاریوں اور افکاریوں کو جیسے کیسے ادا کرنا ہے۔
امید ہے ادب کی رنگین داستان میں مزید تاریخی واقعات ان سے آئندہ بھی سرزد ہوتے رہیں گے۔تاکہ وہ لوگ جنہوں نے پاک ٹی ہاؤس کی فضا کو مہکانے والے تاحیات امر لوگوں کو دیکھا نہ سنا وہ اس گھڑے کے شفاف امرت پانی سے اپنی پیاس بجھا سکیں گے۔