دعوت اور حق

Jamia Azhar

Jamia Azhar

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اسلام نے تاقیامت تک سربلند رہنا ہے اور انسانوں کی ہدایت کا بیڑا اہل اسلام اور داعیان حق کے ذمہ ہے اسی بناپر زندگی کے کسی بھی مقام و مرحلہ پر علماء کرام اور داعی حضرات دین متین کے پیغام حق کو بیان کرنے میں پہلو تہی سے کام نہیں لیا۔حفاظت دین کے سلسلہ میں جامعہ ازہر کا دور ایک مثالی و درخشندہ و تابندہ ہے اللہ کی قسم جامعہ ازہر کے زعماء اس عظیم فریضہ کی تکمیل میں کسی بھی وقت غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔سیکولر قوتوں نے ایک طویل جدوجہد کی ہے کہ عوام کے قلوب و اذہان کو جامعہ ازہر سے متنفر کرکے نکال دیا جائے اور اس کے امتیاز ی مقام علمی کو مشکوک بناکرنقصان پہنچادیا جائے۔اس عظیم علمی مرکز کو ایک ہزار سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے کہ تادم زیست یہ دانش گاہ علم و شعور و آگہی کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔اس کا آغاز 359ھ/970ء میں ہوا جبکہ جمعہ کے خطبہ کا آغاز ماہ رمضان 361ھ کو ہوا اس وقت سے لیکر آج تک مصر کو یہ شرف حاصل ہے کہ ازہر جیسا علمی ادارہ وہاں موجود ہے۔

ازہر کسی عمار ت و دیوار کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بہت زیادہ علماء کرام ،طلباء عظام اور اساتذہ کرام ،فضلاء وشیوخ موجود رہے۔جامعہ ازہر علم و معرفت کا مرکز تھا اس میں عربی زبان، عقیدہ ،تفسیر اور فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہاں تک کہ ازہر نے عامة الناس کے دلوں میں اپنے مضبوط ڈیرے ڈال لیے کہ 200سالوں تک بغیر کسی تعطل کے درس و تدریس کا عظیم دعوتی نظام رائج رہا۔ظاہر بیبرس کے زمانہ میں اس میں علمی فکر کے اندر تجدید ہوئی اورطلباء کے ساتھ عوام الناس کے عمومی طبقے بھی ازہر میں علمی تشنگی بجھانے کے لیے آتے تھے۔جامعہ ازہر جو کہ مسجد ایک ایسی مسجد تھی جس میں بہت بڑا صحن موجود تھا اور اس صحن و مسجد کے گرد بڑے بڑے دارالاقامے موجود تھے جہاں پر دنیا بھر کے طلبہ اپنے علاقائی امتیاز کے ساتھ سکونت پذیر تھے۔ہر کمرہ کے مجموعہ کو رواق کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اس کے ساتھ یہ لکھا جاتاتھاکہ اس دارالاقامہ میں مغربی عرب کے لوگ مقیم ہیں اس لیے اسے رواق المغاربہ کہتے تھے ۔اسی طرح رواق الافارقہ میں افریقی ممالک کے طلبا رہائش پذیر تھے اور رواق الہند میں ہندوستان کے طلبا مقیم تھے اور رواق الشوام میں شاہ کے باسی رہتے تھے ایسے ہی چینی و ترکی وغیرہ کے دارالاقامے موجود تھے۔

جامعہ ازہر کے علماء کا رعب و دبدبہ مصر کے امراء و سلاطین کے دلوں پر قائم تھا اور عوام ازہر کے علماء پر اعتماد و یقین کرتے تھے کہ وہ کسی بھی صورت ان کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں مداہنت سے کام نہیں لیں گے اس کا نتیجہ ہے کہ علماء ازہر بادشاہوں کا قرب حاصل کرنے اور ان کے ساتھ عوامی مسائل پر نفاق و تجاہل پسندی سے کام نہیں لیتے تھے۔علماء کا یہ وطیرہ رہاہے کہ ظالم و جابرحکام کے خلاف عوام کا ساتھ دیتے تھے اور حق بات کی تلقین کرنے کے ساتھ حق دار لوگوں کے ساتھ کھڑے رہتے تھے یہاں تک ان کو انصاف نہ مل جائے اور امن و سلامتی کے قیام میں علماء ازہر کا کلیدی کردار رہا۔

کچھ واقعات درج کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوگا کہ ازہر کے شیوخ نے کیسے مظلوم و مجبور لوگوں کا ساتھ دیا۔ 1200ھ /1786ء میں مصر کے شہر الحسنیہ پر ممالیک کی طرف سے حملے ہورہے تھے اس وقت حسین بک جو مشہور (شفقت یہودی)کے نام سے تھا کی حکومت تھی۔ عوام ازہر کے شیخ احمد دردیری کے گرد جمع ہوئے اور ان کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا کہ انقلابی لوگوں نے ہمارے گھروں اور محلوں پر قبضہ کرلیا ہے ۔شیخ احمد دردیری ان لوگوں کے ساتھ نکلے اور فیصلہ کیا کہ مظلوموں کو حق دیا جائے اور جامعہ ازہر کو بند کردیا جس کے بعد جوق در جوق لوگ ان کے ساتھ شامل ہوئے اور شیخ دردیری کے اس اقدام سے جب ممالیک واقف ہوئے کہ علماء کا جم غفیر ان کی جانب رواں ہے تو وہ فوراً ازہر کے شیخ احمد دردیری کی خدمت میں آئے اور معافی طلب کی اور لوگوں سے کہا کہ جو کچھ ان سے چھینا گیا ہے وہ بتائیں یا واپس کردینگے وگرنہ اس کا معاوضہ اداکریں گے ۔

اسی طرح ممالیک اور حسن باشا کے درمیان شدید اختلافات تھے کہ ممالیک نے ملک میں چوربازاری مچا رکھی تھی اور سرکشی و طغیانی کو شعار بنایا ہواہے اس کی قیادت مراد بیگ کررہا تھا۔ازہر کے علماء ایک مرتبہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ان اختلافات کا خاتمہ کرائیں ۔حسن باشا عثمانی خلافت کا والی ہونے کی حیثیت سے یہ فیصلہ کیا ممالیک کی عورتوں اور بچوں کو قید کرے گا کیونکہ اس کو ممالیک کے عہد و پیمان پر عمل داری کا یقین نہ تھا تو علماء ازہر نے اس کو منع کردیا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ اسلامی شریعت اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا تو حکم دیا کہ حسن باشا ممالیک سے رہن و ضمان حاصل کرلے کہ وہ اب لوگوں کے حقوق کو گزند نہیں پہنچائینگے۔

1209ھ/1795ء میں (الالفی)کے شرقی شہر کے لوگوں نے کہ مملوکی امیر نے ان پر بھاری ٹیکس عائد کردیئے ہیں کہ کاشت کاروں سے بہت زیادہ مال مانگتا ہے یہ بہت بڑا ظلم ہے کہ ہم اس کو ادا کرنے سے عاجز ہیں تو عوام الناس کا وفد ازہر کے شیخ شرکاوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور علماء کا وفد ابراہیم بیگ اور مرادبیگ جو ممالیک کے بڑے تھے ان کے پاس پہنچے کہ الفی کے شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات کریں جبکہ دونوں امیروں کی بے مروتی کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ اب ہم اس کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ازہر کے علماء کے راست فیصلہ کا سن کر ممالیک فوراً شیخ شرکاوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معذرت کی کہ انہوں نے بے مروتی کا مظاہرہ کیا اور کہنے لگے کہ اگر یہ ٹیکس ختم کرینگے اور اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی تو ریاست کے امور چلانے میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔تو علماء نے کہا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حکومت چل سکے یا نہ چل سکے بہرصورت ٹیکس ختم کیا جائیں اور معافی مانگ کر واپس چلے جائیں ۔یہ معافی طلبی صرف زبانی و کلامی بات نہیں ہوتی تھی بلکہ عوام کے حقوق کی حفاظت اور شہروں کی تنظیم و ترتیب اور از سرنو تعمیر کو لازم جان کر اختیار کرلیا جاتاتھا۔اور مظلوم و مجبور لوگوں کے ساتھ کی گئی زیادتی و ناانصافی کا ازالہ کرنے کے ساتھ فقیر و غریب کو اس کا حق اداکردیا جاتاتھا تاکہ وہ اپنے گھروں کی از سرنو بنیاد رکھ سکیں۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری