نسلِ انسانی کے جدِ امجد حضرت آدم کے قدموں نے جس دن سے کرہ ارضی کو چھوا اُسی دن سے حضرت انسان کی لازوال کہانی کا آغاز ہو گیا۔ اگر آپ انسان کے ماضی حال فطرت مزاج مقدر نصیب کا مطالعہ کریں تو انسان پر چھائے ہو ئے تہہ در تہہ اسرار کھلتے چلے جاتے ہیں خالق ِ کائنات اور انسان کا تعلق ‘ انسان کی بے بسی خدا کی عنایات پر نظر دوڑائیں تو چشم کشا حقائق کے پرت کھلتے چلے جاتے ہیں ‘ خدا ئے بے نیاز کی بے نیازی اور کرم رحمت کے رنگ متوازی چلتے نظر آتے ہیں حق تعالیٰ کی بے نیازی اِس قدر کہ چند پیغمبروں کے علاو ہ جلیل القدر پیغمبروں کی قبروں کے نشان تو در کنار اُن کے ناموں تک کا آج کسی کو پتہ تک نہیں جو بھی وادی فنا میں اُترا اُس پر گمنامی کا دبیز پر دہ پڑتا چلا گیا ایک لاکھ چوبیس ہزار جلیل القدر عظیم’ اعلیٰ وارفع شان والے خدا کے پیغام رساں اپنے اپنے وقت پر پردہ جہاں پر اُبھرے پھر جامِ فنا پی کر مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گئے۔
آج کے دور کے انسان کو اُن کی قبریں تو دور کی بات ہے ناموں تک کا نہیں پتہ ‘ انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ حقیقت چاند کی طرح روشن ہو تی چلی جاتی ہے کہ خالق ِ کائنات بعض اوقات کسی عام انسان کی زندگی میںکو ئی لمحہ واقعہ حادثہ ایسا رونما کر تا ہے کہ اُس انسان کو شہرت کے آسمان پر چاند کی طرح لازوال چمک شہرت عطا کر تا ہے یا کسی انسان کی کو ئی ادا عبادت قربانی محبت خدمت خالق ِ کائنات کو اِس طرح بھاتی ہے کہ اُس انسان کو گمنامی کی وادی سے نکال کر شہرت کے آسمان پر بٹھا دیتا ہے ‘ یہ شہرت عارضی اور مستقل ہو تی ہے بعض لوگوں کو عارضی مہینوں سالوں کی شہرت عطا کر تا ہے بعض کو صدیوں کی شہرت عطا کرتا ہے کسی کو ایک گائوں کی حد تک شہرت کسی کو شہر ضلع صوبے ‘ ملک براعظم اور پھر کسی کو پو ری دنیا کے لیے روز قیامت تک لازوال شہرت عطا کر دیتا ہے ورنہ ہر دور میں کروڑوں انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح اِس جہان رنگ و بو میں آئے مٹی کا حصہ بنتے چلے گئے بعض اوقات رب ذوالجلال اپنی کسی خاص صفت کا اظہار کر نا چاہے تو بھی کسی انسان کے بھاگ جاگ جاتے ہیں جس کے ذریعے رب کعبہ اپنی کسی صفت کا اظہار کر تا ہے۔
زمانے کی بدلتی ہو ئی ضرورتوں اور تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہو ئے کسی غیر معمولی انسان کو عقل و شعور فہم و ادراک کا نور عطا کر کے نسل انسانی کی مدد اور رہنمائی کر تا ہے ‘ خوش قسمت ہو تا ہے وہ انسان جس پر خالق ِ کائنات کی نظر پڑ جائے جس کا انتخاب رب کعبہ کر تا ہے پھر وہ انسان روز محشر تک کے لیے لا زوال شہرت کا وارث ٹہرتا ہے ‘ زمانے صدیاں گردشِ ماہ و سال ایسے انسان کی شہرت کو کم کرنے کی بجائے اور نکھارتی چلی جاتی ہے۔
بے نیاز رب تعالیٰ نے اِسی طرح اپنی خاص صفت کا اظہار کرنا چاہا تو روم قونیہ شہر کے ایک عالم دین پر اللہ تعالیٰ کی نظر پڑی جو اگر عالم دین رہتا تو آج گمنامی کے غار میں غرق ہو چکا ہو تا لیکن خدا نے اُسے عقل و شعور گداز ہجر کی نعمت علم کا نور ایسا عطا کیا کہ اُس جیسا پھر صدیاں گزرنے کے بعد بھی کو ئی دوسرا نہ آیا اور نہ ہی آئے گا ‘ ایسا عالم دین جب وہ تقریر کا آغاز کر تا تو ہزاروں کا مجمع پتھر کے بتوں کی طرح ساکت ہو جاتا ‘ درو دیوار اُس عالم دین کے جوشِ خطابت سے لرزتے ‘ لوگوں کی سانسیں رک جاتیں ‘ لوگ سینکڑوں میل کا سفر کر کے اُس کے وعظ سے لطف اندوز ہو نے آتے ‘ یہ عالم دین شہرت کے آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہا تھاآپ کی خطابت کے سامنے چراغ دھندلے ہو تے چلے گئے کسی بھی انسان کو جب لازوال شہرت ملتی ہے تو حاسدین کا گروپ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
عالم دین کی شہر ت کو داغ دار کر نے کے لیے سازش تیار کی گئی ‘ جب عالم دین عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اچانک ایک شخص اٹھا اور بولا محترم آپ اپنے پسندیدہ مو ضوع پر تو خوب بو لتے ہیں مزا تو تب ہے جب آپ ہمارے بتائے ہوئے مو ضوع پر اظہار خیال کریں ‘ عالم دین دلنواز تبسم سے بو لے جناب آپ آج جس موضو ع پر کہیں گے میںاُس پر آج تقریر کروں گا تو وہ شخص بولا جناب آج آپ سورة والضحی کی تفسیر بیان کریں مخالفین اپنا تیر چھوڑ چلے تھے کہ آج ہم نے مشکل ترین مو ضوع چنا ہے جس پر مولانا صاحب تقریر نہیں کر پائیں گے اِس طرح مولانا صاحب لوگوں میں تماشا بن کررہ جائیں گے لیکن مولانا صاحب نے آسمان کی طرف دیکھا ‘ محبوب خدا ۖ پر درود شریف بھیجا اور بولے جناب آج ہم قرآن مجید کی اِس سورة کے پہلے لفظ ” وائو” پر بات کر تے ہیں آج اِسی لفظ کی تشریح ہو گی کہ اللہ تعالی نے اِس سورة میں لفظ وائو کو کیوں استعمال کیا ہے پھر اپنے وقت کے ذہین ترین عالم دین کے منہ سے علم کا آبشار ابل پڑا ‘ جوش خطابت ‘ علم و عرفان فہم آگہی بصیرت کے دریا بہہ رہے تھے۔
متلا شیان علم اپنے خالی دامن بھر رہے تھے ‘ ہجوم پر سناٹا طار ی تھا ‘ عالم دین کا پر مغز خطاب جاری تھا مسلسل چھ گھنٹے لفظ ”واو ”پر واعظ جاری تھا تو وہی شخص اٹھا جس نے اعتراض کیا تھا آگے بڑھ کر مولانا کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا اور معافی مانگی وہ بار بار ایک ہی لفظ بو ل رہا تھا بے شک آج پو رے روم میںآپ کا ثانی کو ئی نہیں ہے ‘ میں حسد کا شکا ر ہو گیا تھا اے نیک دل عالم دین مجھے معاف کر دے ‘ مولانا نے اُس شخص کو اٹھا کر گلے سے لگا یا اور مجمع کی طرف اشار ہ کیا کہ میں نے تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو معاف کیا پھر مولانا کے مقابلے پر کوئی نہ تھا پو رے ملک میں آپ کے علم و فہم کے چرچے تھے آپ کے وعظ میں ہزاروں لوگ شامل ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے ‘ آپ چلتے تو سینکڑوں لوگ آپ کے ہمراہ چلتے ‘ وعظ اور علم کے سمندر پینے کے بعد بھی مولانا اکثر کہا کر تے دنیا جہاں کی کتابیں اور علم سمیٹنے کے باوجود میری باطنی پیاس آج بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
میری بے قراری کو قرار کب آئے گا میری پیاس کون بجھائے گاپھر حق تعالی نے عالم دین کی زندگی میںوہ واقعہ وارد کیا جس نے عالم دین کی زندگی بدل دی اور اُسے قیامت تک کے لیے شہرت کے آسمان پر امر کر دیا ‘ مولانا کے پاس دنیا جہاں کی نادر نایاب کتب کا ذخیرہ تھا ایک دن اپنے کتب خانے میں شاگردوں کو وعظ دے رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی شخص پھٹے پرانے کپڑوں چہرے بالوں میں مٹی پڑی ہو ئی آیا اور آکر شاگردوں کے درمیان سے گزرتا ہوا مولانا کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
مولانا کا وعظ جاری تھا اجنبی کو مولانا کے وعظ سے بلکل بھی دلچسپی نہ تھی وہ بار بار قیمتی کتابوں کو دیکھ رہا تھا آخر اجنبی بولا مولانا یہ کیا ہے اُس کا اشارہ کتابوں کی طرف تھا مولانا کو اجنبی کا سوال برا لگا اُسے کہا بھی میں وعظ میں مصروف ہو ں ‘ فارغ ہو کر تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں پھر اجنبی خاموشی سے مولانا کو دیکھتا رہا جب درس ختم ہوا تو مولانا بولے اے اجنبی آپ کون ہیں یہاں کیا کر نے آئے ہیں تو اجنبی پھر کتابوں کی طرف اشارہ کر کے بو لا یہ کیا ہے تو مولانا بو لے تمہا ری نظر شاید کمزور ہے یہ قیمتی نایاب کتب ہیں لیکن تم اِن کے بارے میں کیا جان سکتے ہو۔
اجنبی مولانا کی بات سن کر اٹھا اور بولا اچھا یہ وہ ہیں جن کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا ابھی الفاظ ختم ہو ئے تھے کہ کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور قیمتی کتابیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں ‘ مولانا دم بخود یہ منظر دیکھ رہے تھے اجنبی کی طرف دیکھااور بولے یہ کیا ہے تو اجنبی بو لا یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے ‘ مولانا کے منہ سے آہ نکلی ہا ئے میری نادر نایاب کتابیں تمہاری وجہ سے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئیں تو اجنبی اٹھا جاتے جاتے بولا اگر میری وجہ سے تمہاری کتابیں جل گئیں ہیںتو میں تمہاری کتابیں واپس کر تا ہو پھر لوگوں نے عجیب منظر دیکھا آگ بجھ گئی مولانا نے بڑھ کر دیکھا ساری کتابیں اصلی حالت میں تھیں ایک ورق بھی نہیں جلا تھا مولانا پکار اُٹھے یہ کیا ہے تو اجنبی بو لا یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔
بعض تذکرہ نگاروں کے یہ واقعہ اِس طرح بیان کیا ہے مولانا ایک دن حو ض کنارے درس دے رہے تھے ایک اجنبی آیا اور بولا کتا بوں کی طرف اشارہ کر کے پو چھا یہ کیا ہیں تو مولانا بو لے تم نہیں جانتے یہ کیا ہیں تم تو جاہل ہو ‘ اجنبی نے بڑھ کر ساری کتابیں حوض میں پھینک دیں ‘ مولانا بھڑک اٹھے’ اے جاہل شخص تم نے میری نایاب کتابیں تباہ کر ڈالیں یہ قیمتی نسخے دنیا میں صرف میرے پاس تھے تو اجنبی نے حوض میں ہاتھ ڈال کر ساری کتابیں نکال کر رکھ دیں جو ساری خشک تھیں ‘ ایک ورق بھی گیلا نہ ہوا تھا مولانا حیرت میں گم بولے یہ کیا کتابیں گیلی کیوں نہیں ہوئیں یہ کونسا علم ہے تو اجنبی بولا یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے ‘ اتنا کہہ کر اجنبی وہاں سے چل دیا مولانا اُس اجنبی کے پیچھے دوڑے کہ جو علم تم جانتے ہو میں اُس کی تلاش میں تھا مجھے غلامی میں قبول کر لو اجنبی کا نام حضرت شمس تبریز تھا اور مولانا تاریخ انسانی کے عظیم اہل معرفت حضرت جلال الدین رومی تھے۔