آج کیسی بے چینی ہے۔ آنکھیں کس کو ڈھونڈ رہی ہیں۔دل کیوں اتنا بے قرار ہورہا ہے۔یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے کسی نے میری روح’ میرا دل اپنی مٹھی میں لے لیا ہو۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنکھیں گھڑی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں کہ شاید چار بج گئے ہیں۔آج چار بجے کا اتنی شدت سے انتظار تھا جیسے کسی بھوکے کو کھانا ملنے کا انتظارہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آج آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ساتھ واقعہ ساہیوال کے یتیم بچوں سے ملنے جانا تھا۔
چاربجے ہماری تنظیم ”APWWA” کا وفد سر پرست اعلیٰ زبیر احمد انصاری کی قیادت میں ان کے گھر کے باہر موجود تھے۔محلے اور گلی کی ویرانی بتا رہی تھی کہ گھر کے لوگوں کے دلوں کا کیا حال ہو گا۔ابھی سات دن پہلے خلیل اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کیسے خوشی خوشی بورے والا اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے اس گھر سے نکلا ہو گا۔ اس وقت بچے کیسے جھوم جھوم کر اپنے ماں باپ سے اٹھکیلیاں کر رہے ہوں گے۔بچوں کا شوروغل سن کر کوئی ہمسایہ بھی گھر سے باہر آیا ہو گااوراس نے دیکھا ہو گا کہ کیسے بن سنور کے’نئے نئے کپڑے پہن کر شادی پر جانے کے لئے بچے تیار ہیں۔ ہنسی خوشی جانے والے چند ہی گھنٹوں بعد ٹی وی کی ہیڈلائن میں مقتول بن کر آنے لگے۔ایک دن بعد جب اس محلے میں تین تین لاشیں آئیں ہو گی تو اس محلے کی درودیوار چیخوں سے گونجی تو ہوں گی۔جنازے اٹھنے کے بعد جب بچے اس محلے میں اکیلے واپس آئے ہوں گے تو زمین اور آسمان نے بھی ان کی یتیمی پر بین تو کیا ہو گا۔بادل بھی خوب بارش کی صور ت میں روئے ہوں گے۔
جب ہم وہاں پہنچے تومحلے کا ہر شخص ہی سوگوار تھا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ایک خاندان کا دکھ نہیں’ بلکہ ہر سوزے دل رکھنے والے انسان کا دکھ ہے۔کیسے پتا لگتا کہ پیچھے رہ جانے والے بچوں کے ورثاء کون ہیں؟ تھوڑے انتظار کے بعد مقتول خلیل کے بڑے بھائی محترم جلیل سے ملاقات ہوئی۔ان سے اظہارِ افسوس کرنے کے بعد ہم نے بچوں سے ملاقات کا کہا۔انہوں نے ہمیں اپنے ساتھ اندرآنے کا کہا اورہم ان کے پیچھے چلتے اس کمرہ تک پہنچے جہاں وہ بچے موجود تھے۔کمرہ رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر بیٹھنے کی جگہ خالی کی گئی۔میری پہلی نظر اس معصوم بچے عمیر پر پڑی جو ان بچ جانے والے بچوں میں سب سے بڑا تھا۔ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے زخم تھا اور وہ کمبل میں لیٹا ہوا تھا۔چہرہ ایسا پیلا زرد تھا جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو۔آنکھیں ویران تھی اور خوشی کی لہروں سے کوسوں دور اور سوالوں سے بھری ہوئی تھیں۔لبوں پہ خاموشی کا تالا لگائے جی، ہاں جی، ٹھیک ان الفاظوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
چھوٹی منیبہ ایک ہاتھ پر پٹی باندھے اور دوسرے ہاتھ سے زخمی ہاتھ کو سنبھالتی گم سم سی حیران و پریشان نظر آئی۔ہادیہ کبھی کسی کی گود میں ماں کی محبت ڈھونڈ رہی ہے تو کبھی کسی کی گود میں باپ کی شفقت یہ دیکھ کر دل اس قدر بے چین تھا اور آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح رواں تھے۔دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ہے یہ زندگی؟؟ گھر سے خوشی کے ساتھ اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ نکلے تھے اور اب واپس آئے ہیں تو نہ ماں نظر آئی نہ باپ اور نہ بڑی بہن۔
بچوں نے تو آخری باراپنے والدین کو بس اس وقت دیکھاتھا جب وہ خون میں لت پت’بے یارومددگار گاڑی میں پڑے تھے۔عمیر اپنے منہ پر پڑنے والے ماں کے خون کے چھینٹے کیسے دھونے دے کہ یہی تو ماں کی آخری نشانی ہے۔دکھوں کی تصویر بنے یہ بچے اپنے والدین کو کھونے کے بعد ابھی تک انصاف سے محروم ہیں۔جے آئی ٹی کی ٹیم کو ابھی تک مجرموں کے خلاف مکمل ثبوت نہیں مل رہے۔اس بے گناہ خاندان کو اتنی سفاکی اور بے دردی سے مارنے کے لئے تو چند سیکنڈ ہی لگے تھے’لیکن انصاف دینے کے لئے اتنے دن گزر گئے مگر انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔اُلٹاانصاف کے نام پر انہیں ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔صدر مملکت اور چیئرمین سینٹ سے ملاقات کے نام پر انہیں سارا دن اسلام آباد کی سڑکوں پر گھمایا گیا اور بغیر ملاقات کروائے آدھی رات کو واپس لاہور چھوڑ دیا گیا۔انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے تاکہ یہ تنگ آ کر صلح کی بات پر آ جائیں اوروقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھول جائیں تاکہ اس کیس کو بھی دوسرے کیسوں کی طرح دبایا جاسکے۔
قارئین!یہ وقت بڑی بے رحم چیز ہے۔یہ گزر تو جاتا ہے لیکن اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے۔یہ ظاہری زخم تو بھر جائیں گئے’ لیکن جو زخم دل اور روح پر لگے ہیں شاید یہ مرتے دم تک نہیں بھریں گے۔رشتے داروں کا پیار اور ہمدردی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑ جائے گا’ ہر کوئی اپنے کاموں اور اپنے اپنے بچوں میں گم ہو جائے گا۔میں جب سے وہاں سے واپس آئی ہوں’میرے لبوں پر تو بس یہی دعا ہے :”ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا اللہ ربّ العزت توان بچوں کی حفاظت فرما’لوگوں کے دلوں کو ان بچوں کے لئے نرم فرما اور ان کے لئے بہتر راستے کھول دے۔آمین!!