ہم سے مراد میں، آپ اور اس ملک کا ہر وہ فرد ہے جو قوم کا آنے والا مستقبل ہے۔ لفظ ہم سے مراد پاکستان کی تریسٹھ فیصد نوجوان نسل ہے۔وہ نوجوان جو پاکستان کے معما رہیں۔ہمارا ملک ایک باغ ہے اور ہم اس کے پھول، پودے۔اسی کی خوشبو سے یہ باغ ہمیشہ مہکے گا۔یہی نوجوان کہیں مصطفی کمال کے روپ میں کراچی کا نقشہ بدلتے ہیں تو کہیں علی معین نوازش کے روپ میں تعلیمی میدان میںایک نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
یہی نوجوان قدرتی آفات کے بعد متاثرین کی مدد کر کے یہ ثابت کرتے ہیںکہ ہم اپنی قوم کی ریڑھ کی ہڈی، بلکہ شہرگ کی حیثیت رکھتے ہیں،ہم نوجوان ہی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور ہم وطنوںکی خوشحالی میں بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ تمام بڑی تحریکیں اورا نقلابات انہی جوانوں کے عزمِ جواں،بازوئے ہمت اورجذبہِ قربانی کا نتیجہ ہے بلکہ ان کا گرم خون بڑے بڑے مفکروں،عالموں،سیاستدانوں اور بے عمل سلفیوں کو بھی میدانِ عمل میں لے آیااور فکر و عمل کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر یوں امڈا کہ منزلِ مقصود بھی ان کے قدموں کو بوسہ دینے پر مجبور ہو گئی۔١٩٦٥ اور١٩٧١ کی جنگوں میںافواجِ پاکستان نے ملک کے لیے بے بہاقربانیاں دیں۔
ستاروں پر کمندیں ڈالیں گئی،عقابی روح بیدار کر کے یقینِ محکم، عملِ پیہم اور محبت فاتح عالم کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسلاف کی درخشندہ روایات کو زندہ رکھ کر ، آدابِ جہانبازی سیکھنے بلکہ خودی کے زور سے دنیا پر چھا جانے کی تمام صلاحیتیں ہم میں موجود ہیں۔ہم نے مئی ١٩٩٨ کو چاغی کے مقام پر دھماکے کر کے خود کو ایٹمی طاقت بنایا۔عبدالقدیر خان جیسے سائنسدان ہمارے پاس موجود ہیں جنہوں نے دن رات محنت کر کے اس ملک کو اس قابل بنایا کہ ہم کسی بھی دشمن کے سامنے ڈٹ سکتے ہیں۔ارفعہ کریم رندھاوا جس نے ١٠ سال کی عمر میں سافٹ وئیراور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اپنا نام پیدا کیااور پاکستان کوانفارمیشن ٹیکنالوجی کی دوڑمیں دوسرے ممالک کے برابر لا کھڑا کیا ۔
عافیہ صدیقی جس نے حق کے لیے آواز اُٹھائی، سپاہی مقبول حسین جس نے زبان تو کٹوا لی مگر پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا۔ جہاں پرنسپل طاہرہ قاضی جیسی ماںاپنے سکول کے ننھے نونہالوں کو بچانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیدے۔جس مٹی میں لاکھوں معصوموں کا لہو ہو، جہاں عبدالستار ایدھی نے اپنی ساری زندگی ملک کی خدمت کے لیے قربان کر دی ہو۔ جس ملک میں جنرل راحیل شریف جیسے بہادر سپوت کی آواز گونجتی ہو۔ جہاں وہ جو بڑا دشمن بنا پھرتا ہے وہ بھی اس ملک کے بچوں سے ڈرتا ہو۔جہاں بابر اقبال اور ایان قریشی جیسے بچے ملک کا سرمایہ ہوں ۔جس وطن کی مٹی نے اجالوں کی گواہی مانگی ہو اور اس ملک کے بچوں نے اپنے خون سے اس باغ کی آبیاری کی ہو وہاں اجالا کیوں نہ ہو؟
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی مذہبی عزت کو للکارا گیا،جب بھی ان کی آزادی پربری نظر ڈالی گئی انہوں نے اینٹ کا جواب بھی پتھر سے دیالیکن جب اپنوں سے ملے تورحماء بینھم کی عملی تفسیر بن گئے۔
لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان باہم انتشار و افتراق کے بگولوں میں جل رہے ہیں۔ قومِ فاران کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔مسلم ریاستیں نا اتفاقی کے بحر بیکراں میں غرق ہو چکی ہے۔ بھائی، بھائی کے سینے میں خنجر گھونپ رہا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی شہ پر عربوں کی پشت پر پنجے گاڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب یمن کو نوچ رہا ہے۔بھارت پاکستانیوں کوآنکھیں دکھا رہا ہے اور نہایت افسوس کے ساتھ ملک کا مستقبل پہ نوجوان اپنے بزرگوں سے بھی زیادہ نفرتوں میں بٹ چکے ہیں ۔بنتِ حوا طبلہ کی تھاپ پر ناچ رہی ہے۔فرقہ واریت، ذات پات اور غربت کے نام پر قتل ہو رہے ہیں۔کشمیر لہو لہو ہے، فلسطین خاک و خون میں لوٹ رہا ہے۔آئی ایم ایف قرضے دے دے کر ہمیں زنجیروں میں جکڑ رہا ہے۔
ارضِ وطن کی زمین قیمتی پتھروں ، اہم ترین جواہرات، سونے چاندی ، پٹرول اور تیل سے مالا مال ہے۔ گلگت اور سوات کے دریائوں میں بہہ کر آنے والا سونا لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے بازاروں میں آ کر بکتا ہے جسکا منبع ہم آج تک تلاش نہیں کر سکے۔ سوچنے کا مقام ہے غریب اور غریب اور امیر ، امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس ختم ہوتی جا رہی ہے۔سیاستدان لیاقت باغ، موچی دروازے اور قصہ خوانی جیسی جگہوں پر جانے سے گبھراتے ہیں۔ ہر سطح پر غذائی ملاوٹ کا انتظام موجود ہے جسے کوئی روکنے والا نہیں۔آج اقبال کے شاہین جنہوں نے ستاروں پر کمندیں ڈالنی تھیں کچھوؤں کے جوتے پہن کر ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے چلے ہیں۔ کاغذ کی کشتی کو سدا بہانے چلے ہیں۔ہم ہاتھ میں کشکول اٹھائے خدا کے سامنے جھکنے کی بجائے اغیار کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔
پہاڑ ہمارے پاس، سرسبز اونچائیوں کے ہم مالک، ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہمارے سینہِ ارض میں دفن، بے بہا خزانوں کے مالک ہم، لیکن افسوس ہم پیغمبرِ حق کے ماننے والے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اغیار کے سامنے کشکول پھیلاتے ہیں۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی او ر کافری کیا ہے
ہم نوجوان ملتِ اسلامیہ کا آخری سہارا ہیں۔ ہمیں ملت کے ناسور کی شافی دوا بننا ہے۔اللہ نے بے پناہ صلاحیتیں ہمیں عطاء کی ہیں گلشن کی بہار ہم سے ہے، اگر ہم پر عزم ہو گئے تو ہمارا عزم مشکلات کو ریت کی دیوار بنا دے گا۔یقینِ محکم سے کام لیں اتحاد و اتفاق کے پیغام کو گلی گلی، نگر نگر پھیلا کر رنجشوں کو مٹا کر ، فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک تسبیح کے دانے ہو جانے میں ہی سمجھداری ہے۔اللہ پاک ملک پاکستان پر اپنا کرم کرے اور اسے امن کا گہوارہ بنا دے امین۔پاکستان زندہ باد