معروف صحافی شمشاد مانگٹ کی کتاب سیاسی چور

Shamshad Mangat

Shamshad Mangat

تحریر : شہزاد حسین بھٹی

ہر کالم نگار کا اپنا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ مذہب، ادب صحافت اور وقائع نگاری، بالعموم کالم نگار انہی وادیوں سے نکلتے ہیں۔ یہ پس منظر کالم نگاری پر اثر ڈالتا ہے۔ سیاسی عمل کی تفہیم اس کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ پس منظر جو بھی ہو، سماجی علوم، مذہب، تاریخ اور ادب سے تعلق گہرا نہ ہو تو واقعات کا مفہوم اخذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بلا شبہ کالم نگار کے تعصبات بھی ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قاری مسلسل پڑھتا رہے تو اس کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں رہتا کہ کہاںمعروضیت ہے اور کہاں تعصبات۔سماجی عمل سے عدم واقفیت کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا ہر واقعے کو منفرد سمجھتا ہے۔ یوں وہ ایک جیسے واقعات کو مختلف زاویہ ہائے نظر سے دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر سیاسی کلچر کا ایک پہلواہلِ سیاست کا باہمی تعلق ہے۔

اگر کالم نگار سماجی عمل سے واقف ہو گا تو وہ جان پائے گا کہ سیاسی قیادت کا لب و لہجہ کیسے سماجی رویوں میں سرایت کرتا ہے اور سیاسی کلچر کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ اس عہد میں رائے ساز کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ فکر و نظر کی دنیا میں توازن کا قیام اور اختلاف رائے کو آداب کے تابع کرنا، اس کا سب سے اولین فریضہ ہے۔یہ وعظ و نصیحت سے نہیں عملی مثال پیش کرنے سے ہو گا۔ رائے سازوں کو، جن میںکالم نگار شامل ہیں، یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ کس اسلوب میں اختلاف کریں گے۔ وہ کیسے دوسرے نقطہ ء نظر کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھیں گے۔ اس وقت لکھنے والے سماجی رویے کی تشکیل میں شریک ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔ یہ ذمہ داری کتابوں سے تعلق رکھے بغیر نہیں آ سکتی جو اس وقت بھی علم کے حصول کا سب سے مستند ذریعہ ہیں۔

سینئر صحافی وکالم نگار شمشادمانگٹ کی شخصیت اسلام آباد کے صحافتی و ادبی حلقوںمیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔شمشاد مانگٹ کام ،کام اور صرف کام کرنے والے ان تھک محنتی صحافی و کالم نگار ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر میںکبھی شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا بلکہ مسلسل محنت ہی ان کو آج اس مقام پر لے آئی ہے کہ جہاں وہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے اخباراور نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر ہیں۔ دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے شمشاد مانگٹ نے اپنی عملی زندگی کا آغازبحیثیت رپورٹر کیا اور ضیاء شاہد جیسے کہنہ مشق صحافی کے اخبار خبریں سے وابستگی اختیار کی۔

“سیاسی چور” پاکستان لوٹنے والوں کا قلمی احتساب ،شمشاد مانگٹ کے روزنامہ جناح کے لیے لکھے گئے کالموں پر مشتمل مجوعہ ہے ۔کتاب کا موضوع سیاست، معاشرت اور سماج ہیں۔ شمشاد مانگٹ سیاسی چور بازاری اور مختلف ادوار میں آنے والے فوجی حکومتوں او ر جموریتوں کے حسن سے سخت نالاں ہیں اور افسردہ ہیں کہ گذشتہ ستر سالوں میں پاکستان کے عام آدمی کو کیا ملا؟۔ کتاب سیاسی چور دوسو چھپن صفحات پر مشمتل ہے اسکے ناشر معاز ہاشمی جبکہ اہتمام امجد اقبال نے کیا ہے۔ کتا ب کا سرورقر خوبصورت لیمنیشن اورفلپ کے ساتھ ہے جس میںپاکستان کے نقشے کو دیکھایا گیا ہے جسے چوہے اور دیگر حشرات(کرپٹ اور مافیاز) کھانے میںمصروف دیکھائی دیتے ہیں۔ کتاب کا سرور ق دیکھتے ہی ایک عام قاری بھانپ جاتا ہے کہ یہ کتاب کس نوعیت کی ہے۔کتاب کا اندرونی فلیپ معروف صحافی اور کالم نگارمظہر برلاس نے لکھا ہے جس میں سے دو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں ایک یہ کہ مصنف ایک محنتی انسان ہے جو ہمیشہ اپنے قلم کے ساتھ انصاف کرتا چلا آیا ہے اوردوسرا صحافتی مراتب کی جدوجہد میں کوئی شارٹ کٹ یا لاٹری نہیں بلکہ ماں کی دعائوں کا دخل تعبیر کیا گیا ہے۔

اس کتاب کا انتساب وطن عزیز کے عام آدمی کے نام ہے جو اکہتر سال سے استحصال کا شکار ہے مگر ابھی مایوس نہیںہوا۔ کتاب کا مقدمہ معروف صحافی ضیاء شاہد نے لکھا ہے جس میںانہوں نے شمشاد مانگٹ کے ساتھ گزرے اپنے ذاتی مشاہدات کو بھی بیان کیا ہے۔ ضیاء شاہد لکھتے ہیں کہ بہت برس پہلے شمشاد مانگٹ میرے اخبار روزنامہ خبریں اسلام آباد کی ٹیم میں شامل ہوئے اور چند برسوںمیں اپنے محنت، پیشہ وارانہ قابلیت اور صحافت کو مقدس زندگی قرار دینے کے نتیجے میں چیف رپورٹر بنا دیئے گئے۔ وہ ان تھک کارکن تھے اور میں اس زمانے میںبھی انہیں گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر دفتر آنے اور گھر جانے کے بجائے ہمہ وقتی صحافتی کارکن سمجھتا۔ خبریں کے آغاز کے دن تھے اور روٹین کی رپورٹنگ کے بجائے ہم اخباری چھاپوں، خصوصی انسپکشن ٹیموں اور عوامی سطح پر کھلی کہچریوں پر بہت زیادہ توجہ دے رہے تھے، شمشاد مانگٹ اس ٹیم کے سرخیل تھے۔ شمالی پنجاب، آزاد کشمیر ہو یا اس وقت کے صوبہ سرحد کے دور دراز مقامات، انہوں نے سینکڑوں نہیں ہزاروں رپورٹیں مرتب کرنے کے لیے آئوٹ ڈور سرگرمیوںمیں حصہ لیا۔

کتاب کا پیش لفظ شمشاد مانگٹ نے خود تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ میں دیہاتی پس منظر کا حامل ہوں۔ میرا گائو ں “مانگٹ”ایک ہزار سال پرانی تاریخ کا ایک باب ہے۔ میرے گائو ںکی مسجد آٹھ سو سال پرانی ہے جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ گائوں میں سب کچھ بدل گیا مگر یہ مسجد اپنی تمام تر روحانیت کے ساتھ اسی طرح موجود ہے۔ اسی طرح ایک جگہ مزید لکھتے ہیں کہ جمہوریت کے پچھلے ستر سالوں میںعوام کے ساتھ کونسا دھوکہ ہے جو نہیں ہوا؟ اور کون سا وعدہ ہے جو ایفا ہوا ہے؟ پاکستان کے عوام کتنے بدنصیب ہیں جنہیں ستر سال میں نہ ہی مخلص آمریت نصیب ہوئی اور نہ ہی خیر خواہ جمہوریت گلے مل سکی ۔ جو آمراقتدار میںآئے وہ سیاسی جماعتوں کے آلہ ء کار بن گئے اور جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں ان کے اندر سے آمریت نے جھانکنا شروع کر دیا۔ بدنصیب عوام جمہوری ٹھگوںمیں گھرے ہوئے ہیںلیکن آمریت کے لیے دعا کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

پچہترکالموں پر مشتمل اس کتاب کا بیک اننر فلیپ معروف ایڈوکیٹ چوہدری محمد اشرف گجر نے لکھا ہے جو کہ مصنف کے قریبی دوست بھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ شمشاد مانگٹ کی شخصیت میرے جیسے بہت سے احباب کے لیے نیلگوں اُفق پر چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہے ۔میری اور شمشاد مانگٹ کی رفاقت اتنی ہی قدیم ہے جتنی میری وکالت اور اسکی صحافت۔ قریباً اڑھائی عشرہ بیتنے کے باوجودگزرا ہوا ہر لمحہ میری یاداشت کی تختی پر پہلے دن کی طرح اُجلا اور تر و تازہ ہے۔ شمشاد مانگٹ اور میری قلبی اور ذہنی ہم آہنگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ بھی میری طرح سونے کا چمچہ منہ میںلے کر پید انہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ مشکل رستوں کا مسافر رہا۔ آگے چل کر مزید لکھتے ہیںکہ وہ لمحہ آج بھی یاد ِتازہ کی طرح میرے حافظے پرنقش ہے جب غالباً بیس سال قبل شمشاد مانگٹ تحقیقاتی صحافت کا سورج بن کر میرے روبرو آبیٹھا۔ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اشرف گجر صاحب جیل میں بہت ظلم ہوتا ہے وہاں قیدیوں کی اصلاح نہیں کی جاتی ۔ انہیں پختہ کارجرائم پیشہ تربیت کا ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ لہذا جیل کے ماحول کا مشاہدہ کرنے کے لیے مجھے جیل بھجوائیں۔ پھر شمشاد مانگٹ جیل گیا اور دوہفتے گزارنے کے بعدجیل سے باہر آیا تو اس نے اپنی روداد میں ہو شربا انکشافات کئے کہ ہر شخص چونک اُٹھا۔

شمشاد مانگٹ سے راقم کی دوستی عزیز دوست اور مربی سینئر صحافی جاوید ملک کی وساطت سے ہوئی ۔ جاوید ملک دوستوں کے دوست ہیں ۔ میرے شہر سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں میری شناسائی بھی اُنہی کی مرہون منت ہے۔ شمشاد مانگٹ صاحب کی شخصیت ایک نرم مزاج،شفیق، کینہ و بغض سے پاک ایسے دوست کی سی ہے جواپنی ہر بات اپنے دوستوں سے شیئر کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ حقیقت پسندانہ شخصیت ہونے کی وجہ سے لگی لپٹی نہیں رکھتے اور دوستوں سے اپنی آراء کاکھل کر اظہار کرتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ دوستوں کے مددگار بھی ہیں۔ غرور اور تکبر نام کی چیز کم از کم میں نے ان میں نہیں دیکھی ۔ میری جتنی بھی ملاقاتیں ان سے ہوئی ہیں یا میں انہیں جان سکا ہوں وہ مشورہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں چاہے معاملات ذاتی ہوں یا پیشہ وارانہ ۔میں سمجھتا ہوں یہی وہ خوبی ہے جو ان کی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ شمشاد مانگٹ کی کتاب کا ایک ایک کالم میں نے پڑھا ہے اورجوں جوں میں پڑھتا گیا مجھے شمشاد مانگٹ کی حقیقت پسندی، صاف گوئی اور بے باک پن نے بہت متاثر کیا ہے۔

وہ ایک نڈر اور بے خوف صحافی ہیں۔ یہ صحافیوں اور قلم کاروں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جنکی گردن کٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی۔ ان کا قلم ہمیشہ ظلم ، جبر اور زیادتی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے۔ شمشاد مانگٹ اُن لوگوںمیں سے ایک ہیں جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کو کہنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریرکی سہل پسندی عام قاری کو اپنی گرفت میںلے لیتی ہے اور قاری پورا کالم پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ماڈرن کیمونیکشن بھی یہی کہتی ہے کہ زبان کو اتنا سہل ہونا چاہیے کہ پڑھنے والا نہ صرف اسے باآسانی سمجھ سکے بلکہ اپنا فیڈ بیک بھی دے ۔ لکھنے والے کی سوچ اور قاری کی سوچ اگر برابر ی کی سطح پر آ جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا ابلاغ مکمل ہوا۔شمشاد مانگٹ کا انداز تحریر اتنا پختہ ہے کہ وہ کالم کے عنوان سے انصاف کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ انکے کالم کی بناوٹ مختلف واقعات اور کہانیوں کو جوڑ کر ایک گلدستے کی شکل میںپیش کرتی ہے۔

سیاسی چور عام قاری کے ساتھ ساتھ صحافت اور کالم نگاری کے طالب علموں کے لیے بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا انہیں مشورہ ہے کہ کتاب سیاسی چور کو خرید کر پڑھیں، ان کے خرچ کیے گئے پیسے رائیگاں نہیںجائیںگے۔شمشاد مانگٹ کا ایک ایک کالم علمیت، اطلاعات اور آگاہی سے بھرپور ہے جو عام آدمی کو اس کے حقوق اور فرائض سے آشنا کراتی ہے۔ دُعا ہے شمشاد مانگٹ کا صحافتی کم ادبی سفرکبھی نہ رکے بلکہ جاری و ساری رہے تاکہ آنے والے تشنگانِ علم ان کے علم و تجرے سے بہرور ہو سکیں۔

Shahzad Hussain Bhatti

Shahzad Hussain Bhatti

تحریر : شہزاد حسین بھٹی