میں لاہور کے مہنگے ترین علاقے میں محل نما بہت بڑے گھر میں آیا ہوا تھا گھر کے مکینوں کی حرکات و سکنات سے دولت اور غرور کا اظہار مسلسل جا ری تھا گھر کے درو دیوار گراونڈ پھولوں اور پھل دار پودوں اور درختوں سے بھی امارت واضح پر چھلک رہی تھی گھر بہت نیا لگ رہا تھا گھر کی حالت سے واضح طو ر پر اندازہ ہو رہا تھا کہ گھر والے پچھلے کئی عشروں سے دولت میں کھیل رہے ہیں یعنی خا ندانی رئیس ہیں نوکروں کی فوج اور ان کی مستعدی سے بھی پتہ لگ رہا تھا کہ میں ما ضی کے کسی بادشاہ یا نواب کے گھر آگیا ہوں مجھے حیرت کا بہت بڑاجھٹکا اس وقت لگا جب میں نے چند خوا جہ سراں کو بھی اِس لشکر کا حصہ دیکھا جو برق رفتاری سے زنان خانے میں آجا رہے تھے گھر کے چپے چپے سے امارت اور شاہی غرور ٹپک رہا تھا۔
گھر والوں نے گھر کی آرائش اور ڈیکوریشن سے اپنے اعلی رفیق اور بے پنا ہ دولت کا اظہار کیا تھا یقینا میری طرح جو بھی اس گھر میں داخل ہو تا ہو گا تو وہ فوری طو رپر عقیدت و احترام میں گرفتار ہو جا ئیگا لیکن میرے اوپر ایسی امارت اور تکبر کا اثر بلکل بھی نہیں ہو تا لیکن میرا تجسس آخری حدوں کو چھو رہا تھا کہ اِس شاہی محل میں کون خو ش نصیب رہتے ہیں اور انہیں مجھ فقیر سے کیا کام ہے میرا یہاں کے رہنے والوں سے کسی قسم کا بھی تعارف یا جان پہچان نہیں اور اگر مجھے پتہ ہو تا کہ یہاں انسانوں کی بجا ئے مغرور انسان رہتے ہیں تو میں کبھی بھی یہاں کا رخ نہ کرتا مجھے تو پچھلے کئی دنوں سے ایک شریف سادہ سا آدمی بار بار کہہ رہا تھا کہ میرا صاحب بیمار ہے۔
آپ ان کو دم کر دیں آپ ان کے لیے دعا کر دیں بیمار صاحب کا یہ ملازم تھا صاحب جی کے اِس ملازم پر بہت سارے احسانات تھے اب ما لک صاحب فراش تھے ڈاکٹروں نے جواب دے رہا تھا گھروالوں نے careکر نا چھوڑ دی تھی لیکن یہ ملازم بیچارہ کیونکہ بچپن سے صاحب کے ساتھ تھا اِس بیچارے سے صاحب کی یہ معذوری اور بیماری دیکھی نہ جا تی تھی کسی نے اِس کو میرے با رے بتا یا تو یہ کئی دن سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا کہ میرے صاحب آپ کے پاس آنہیں سکتے آپ خدا کے لیے میرے ساتھ جا کر ان کو دیکھ لیں کو ئی دعا یا وظیفہ بتا ئیں شاید وہ ٹھیک ہو جا ئیں ملازم کی ایسے مالک سے والہانہ محبت اچھی لگی اِس لیے میں اِس ملازم کے ساتھ اِس دولت کدے پر آگیا تھا مجھے جہازی وسیع و عریض ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا گیا اب میں اِس انتظا رمیں تھا کہ کب مجھے مالک صاحب کے کمرے میں لے جایا جا ئے گا ۔ کیونکہ میں یہاں پر اجنبی تھا اِس لیے میں اکیلا بیٹھا ہواتھا اچانک کمرے میں ایک نوجوان داخل ہوا مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوا اور پھر اس نے کسی ملازم کو شاید آواز دی ملازم آیا تو وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ میں کون ہوں اور یہاں کیا کر رہا ہوں۔
ملازم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ یہ پیر صاحب ہیں اور یہ یہاں بڑے صاحب کو دیکھنے آئے ہیں اب اس نے سر سے پاں تک بغور میرا معائنہ کیا وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا اور پتہ نہیں کیوں بیٹھ گیا اور مجھ سے مخا طب ہوا کہ میں پیروں فقیروں اور دم وغیرہ پر یقین نہیں کر تا میں سپا ٹ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا وہ اِدھر ادھر کی بکواسات میں مصروف تھا اس کی باتوں سے امارت اور تکبر کی واضح بو آرہی تھی میں خا موش بیٹھا اس کو دیکھ رہا تھا باتوں باتوں میں اس نے بتا یا کہ وہ والد صاحب کو ڈاکٹر صاحب کی ہدا یت پر یو کے اور سکاٹ لینڈ گھما کے لایا ہوں پتہ نہیں وہ کیو ں مجھے مرعوب کر نے کی کو شش کر رہا تھا جب میں نے اسے بتا یا کہ میں بھی حال ہی میں یو کے سکاٹ لینڈ سے واپس آیا ہو ں اور جب میں نے لاک لو مڈ کی جنت نظیر وادی کا ذکر کیا تو اس نے میرے طرف یوں دیکھا جیسے میرے سر پر سینگ اگ آئے ہوں۔
وہ حیران نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا کہ جیسے وہ اور اس کی فیملی ممبران کے علاوہ کو ئی اور تو اس جگہ جا ہی نہیں سکتا لیکن میرے سکاٹ لینڈ جا نے کی با ت سے اب اس کی گفتگو نرم مہذب ہو گئی تھی اِن امیر زادوں کی نظر میں جو یو رپ امریکہ گھوم آئے وہ ہی انسان ہے باقی تو انسان ہیں ہی نہیں پہلے تو وہ شاید مجھے بڑے صاحب تک لے کر نہ جا تے لیکن بر طانیہ کی بات کے بعد اب وہ مجھے بھی انسان سمجھنا شروع ہو گئے تھے اب اس نے ملازموں کو گرین سگنل دیا کہ ہم بڑے صاحب کے کمرے میں آرہے ہیں اب ہم مختلف راہداریوں سے گزرتے ہو ئے گھر کے پچھلی طرف انیکسی کی طرف بڑھے جہان پر بڑے صاحب سب سے الگ تھلگ پڑے تھے پو را گھر کرا س کر گئے جب ہم بڑے صاحب کے کمرے میں داخل ہو تے تو میں اسے منظر کے لیے بھی تیار نہ تھا وہ کمرہ نہیں بلکہ کوئی ہسپتال لگ رہا تھا دنیا جہاں کی میڈیکل مشینیں پڑی تھیں اور ایک بیڈ پر ہڈیوں کا ڈھانچہ نما انسان جو بڑے صاحب تھے جسم فالج کے بعد اب بے حس و حرکت پڑا تھا جسم پر گو شت کی بجا ئے پتلی چربی تھی جس نے ہڈیوں کو جکڑ رکھا تھا۔
انسانی ڈھانچے کے پاس سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نرس کھڑی تھی اب بابا جی اِن مشینوں اور نرسوں کے حوالے کر دئیے گئے تھے بابا جی کی اولاد ان کی زندگی کی کمائی پر خوب عیش کر رہی تھی اور بابا جی مو ت کی دہلیز پر آخری ہچکیاں لے رہے تھے میں نے مالک صاحب کا نام پو چھا تو بیٹے نے بتا نے سے گریز کیا لیکن اِسی دوران ملازم نے مالک کا نام بتا دیا جو نام ملازم نے بتا یا وہ مجھے آشنا آشنا لگا میں نے اپنی تسلی کے لیے دوبارہ نا م دہرایا تو تصدیق ہو گئی کہ یہ ملک کے بہت بڑے صنعت کار اور اربوں کھربوں کا مالک انسان جو چند سال پہلے جب پو ری طرح حرکت میں تھا تو ہزاروں لوگوں کا ہجوم اس کا انتظار میں ہو تا تھا اور پھر جب وقت نے کروٹ لی رگوں میں دوڑتا خون سرد ہوا جسمانی توازن خراب ہوا بیما ری نے گرفت میں لے کر بستر پر گرا دیا تو آئینہ لوگوں کی یاداشت سے بھی محو ہو تا گیا میں حیرت سے وطن عزیز کے اِس نامور ارب پتی کو دیکھ رہا تھا جس نے ساری زندگی دولت اکٹھی کر نے پر اپنی قوت خرچ کی جوانی اور زندگی دے دی اور آج جب وقت بدلا تو اولاد نے چند نرسوں کے حوالے کر دیا اور خود با پ کی کما ئی پر عیش کر نے لگے انسان جب پا ور میں ہو تا ہے تو بھول جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی بڑے بڑے اس زمین پر آچکے ہیں۔
آج ان کی قبروں کے نشان تک نہیں ہیں اور جو لوگ اپنی دولت خدمت خلق پر خرچ کر تے ہیں تو خدائے بزرگ و برتر ان کا نام تا ریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں زندہ جا وید کر دیتا ہے اور پھر گردش روز و شب اور صدیوں کا غبا ر بھی ان کے نام کو نہیں دھندلا سکتا اِسی دوران بیٹے کو کسی کا فون آیا تو وہ بتا نے لگا کہ والد صاحب اب مرنے والے ہیں ہم نے تمام کا غذات تیا کروا لیے ہیں اب جا ئیداد ہما رے نام ہو چکی ہیں اب انہیں والد صاحب کی کو ئی ضرورت نہیں بیٹا اپنی یہ کامیابی فخریہ انداز میں کسی کو بتا رہا تھا فون بند کر نے کے بعد بیٹے نے میری طرف دیکھا اور کہا جناب کو ئی ایسی دعا یا وظیفہ بتا ئیں کہ والد صاحب اب اللہ کے پاس چلے جائیں یہ تکلیف میں ہیں اب موت ہی ان کا واحد علا ج ہے پھر اس کی ماں اور با قی رشتے دار بھی آگئے وہ سب میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ بابا جی کب مریں گے تا کہ ہما ری ان سے جان چھوٹے مجھے اچانک لگا یہ گدھیں ہیں جو مردارکھانے کے لیے موت کا انتظار کر رہی ہیں کب یہ مر ے مجھے اِن کے چہرے سے گھن آنے لگی میں تیزی سے با ہر کی طرف دوڑا کہ میں یہاں ما دیت پرستی میں غرق جانوروں میں پھنس گیا ہوں جو اپنے ہی خون کو چوسنے کو تیار ہیں۔