ہالینڈ (جیوڈیسک) ہالینڈ کے اسلام مخالف اور بہت متنازعہ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز کے دیرینہ ساتھی اور سابق دست راست جورم وان کلیویرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان کے اس انکشاف پر ہالینڈ میں بہت سے حلقے قطعی حیران ہیں۔
ہالینڈ میں دی ہیگ سے منگل پانچ فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مراسلوں کے مطابق ملکی میڈیا میں آج شائع ہونے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ڈچ پارلیمان کے انتہائی دائیں بازو کے ایک سابق رکن اور ماضی میں گیئرٹ ولڈرز کے دست راست سمجھے جانے والے سیاستدان جورم وان کلیویرین نے اسلام قبول کرنے کا انکشاف کیا ہے۔
وان کلیویرین، گیئرٹ ولڈرز کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی (PVV) کی طرف سے ڈچ پارلیمان کے ایوان زیریں کے سات سال تک رکن رہے تھے اور اس دوران انہوں نے سیاسی سطح پر ایک مذہب کے طور پر اسلام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کی ہر ممکنہ حوالے سے مخالفت کی تھی۔
اس عرصے کے دوران اپنے بہت سخت گیر موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وان کلیویرن نے بیسیوں بار یہ مطالبے بھی کیے تھے کہ ہالینڈ میں برقعے اور مساجد کے میناروں پر پابندی ہونا چاہیے۔
ڈچ روزنامے ’الگیمین ڈاگ بلاڈ‘ (AD) کے مطابق یہ وہ دور تھا، جب گیئرٹ ولڈرز کے ساتھ مل کر جورم وان کلیویرین نے یہاں تک بھی کہہ دیا تھا، ’’ہم (اپنے ملک میں) کوئی اسلام نہیں چاہتے۔ اور اگر لازمی ہو تو کم سے کم ممکنہ حد تک۔‘‘
اب لیکن 40 سالہ جورم وان کلیویرین نے کہا ہے کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھ رہے تھے کہ اس عمل کے تقریباﹰ وسط میں ان کا ذہن ہی بدل گیا۔ پھر جو کچھ انہوں نے لکھا، وہ ان اعتراضات کی تردید اور جوابات تھے، جو غیر مسلم اسلام پر ایک مذہب کے طور پر کرتے ہیں۔
وان کلیویرن نے ڈچ اخبار این آر سی کو بتایا ، ’’تب تک جو کچھ بھی میں نے لکھا تھا، اگر وہ سچ ہے، تو میری اپنی رائے میں، میں مسلمان ہو چکا ہوں۔‘‘ جورم وان کلیویرن نے اس اخبار کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے گزشتہ برس 26 اکتوبر کو باقاعدہ طور پر اسلام قبول کر لیا تھا۔
ہالینڈ کے روزنامہ این آر سی نے اس بارے میں وان کلیویرن کے ایک انٹرویو کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جلد ہی اس ڈچ سیاسیتدان کی لکھی ایک کتاب بھی منظر عام پر آ رہی ہے، جس کا عنوان ہے، ’’مرتد: لادین دہشت گردی کے زمانے میں مسیحیت سے اسلام تک۔‘‘
ڈچ میڈیا کے مطابق وان کلیویرن کے اس انکشاف نے ہالینڈ میں بہت سے حلقوں کو بالکل حیران کر دیا ہے۔ ایک اخبار نے لکھا ہے، ’’ان کی طرف سے تبدیلی مذہب کے انکشاف سے ان کے دشمن اور دوست دونوں ہی ششدر رہ گئے۔‘‘ سیاسی طور پر وان کلیویرن نے 2014ء میں متنازعہ ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز سے دوری اور ان کی پارٹی سے علیحدگی اختیا رکر لی تھی۔
ہالینڈ پہنچنے پر ڈچ پولیس نے ترک وزیر برائے خاندانی امور فاطمہ بتول سایان کایا کو اپنی حفاظت میں بے دخل کر کے واپس جرمنی پہنچا دیا۔ وہ روٹرڈیم میں ترک باشندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے وہاں پہنچی تھیں۔ خاتون وزیر کی اس طرح ملک بدری کے بعد روٹرڈیم میں مظاہرے شروع ہو گئے۔
تب 2016ء میں وان کلیویرن نے انتہائی دائیں باز وکی اپنی ایک علیحدہ سیاسی جماعت بھی قائم کر لی تھی، جس کا نام انہوں نے وی این ایل یا ’فار نیدرلینڈز‘ رکھا تھا۔ 2017ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ان کی یہ جماعت کوئی ایک بھی پارلیمانی نشست نہیں جیت سکی تھی اور اس کے بعد وان کلیویرن نے عملی سیاست کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
ہالینڈ میں مراکشی نژاد مسلمانوں کی مساجد کی تنظیم کے ایک عہدیدار سعید بوہارو نے اخبار ’اے ڈی‘ کو بتایا، ’’یہ (وان کلیویرن کا قبول اسلام) ایک شاندار خبر ہے کہ ایک ایسا شخص جس نے اتنی شدت سے اسلام کی مخالفت کی تھی، اب جان گیا ہے کہ یہ کوئی برا یا غلط مذہب نہیں ہے۔‘‘ سعید بوہارو نے مزید کہا، ’’انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب اسلام قبول کر چکے ہیں۔‘‘
ڈچ سیاستدان گیئرٹ ولڈرز وہی اسلام مخالف رہنما ہیں، جنہوں نے پیغمبر اسلام کے خاکوں کا ایک متنازعہ مقابلہ منعقد کرانے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کے ان ارادوں کے خلاف بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں وسیع تر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ بعد میں ولڈرز نے اپنا یہ ارادوہ منسوخ کر دیا تھا۔