اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان کے معاملے پر پاکستان اور امریکا کے مابین ایک عرصے تک اختلافات برقرار رہے تاہم اب امن مذاکرات میں پاکستان پس پردہ لیکن مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکی اہلکاروں اور طالبان نے اس امر کی تصدیق کی ہے۔
امریکا اور طالبان کے مابین جاری مذاکرات کے بارے میں اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ایک سینیئر امریکی اہلکار نے کہا، ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر مذاکرات ممکن نہیں ہو سکتے۔ اس اہلکار نے اس بارے میں مزید تفصیلات تو فراہم نہیں کیں تاہم یہ ضرور بتایا کہ قطر کے درالحکومت دوحہ میں منعقدہ مذاکرات کے حالیہ دور کے لیے پاکستان کی جانب سے سفری و دیگر انتظامی معاملات میں بھی اہم مدد فراہم کی گئی تھی۔
افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں جاری امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے اس سے قبل زیادہ معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ روئٹرز کی تازہ رپورٹ میں البتہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے عدم تعاون کا مظاہرہ کرنے والے طالبان جنگجوں پر ان کے اہل خانہ کو تحویل میں لے کر بھی دبا ڈالا۔ طالبان ذرائع کے مطابق اسلام آباد حکومت نے ایک موقع پر ایک مذہبی شخصیت کے ذریعے طالبان تک یہ پیغام بھی پہنچایا کہ اگر وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات پر رضامند نہیں ہوتے، تو ان کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات منقطع ہو سکتے ہیں۔
ایک سینئر طالبان رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ہم نے پاکستان کو اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا۔ اس رہنما کے مطابق پاکستان نے گزشتہ چند ماہ سے یہ دبا برقرار رکھا ہوا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ طالبان امریکا اور کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کے عمل میں شریک ہوں۔
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
امریکی فوج کے مرکزی کمان سنبھالنے والے جنرل جوزف ووٹل نے ملکی سینیٹ کو دی گئی اپنی ایک بریفنگ میں بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ تاہم اسی دوران کئی سابقہ اور موجود امریکی اہلکار س بارے میں شکوک و شبہات بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال اسلام آباد کی مالی امداد پر پچھلے سال عائد کردہ پابندی برقرار رکھی جا رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی ذرائع کہتے ہیں کہ تازہ اقدامات کے پیچھے امریکی امداد کی بندش نہیں بلکہ علاقائی اقتصادی صورتحال کارفرما ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکا کے اچانک انخلا سے خطے میں ایک معاشی بحران کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ویسے ہی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کر چکا ہے۔ دریں اثنا پاکستان اپنے ہاں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی کوشاں ہے۔ ایسے میں افغانستان میں افراتفری پاکستان کے لیے انتہائی پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے۔