لندن (جیوڈیسک) برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ’’ انقلاب کے چالیس سال کے بعد بھی ایران کو سخت گیر کنٹرول کررہے ہیں اور وہ ریاست کے اندر ایک نظریہ بن چکا ہے‘‘۔
انھوں نے لندن میں العربیہ نیوز چینل کی بیورو چیف ریما مکتبی سے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے:’’میں صاف لفظوں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سخت گیروں کا ایران میں بہت زیادہ کنٹرول ہے۔میرے خیال میں ہمیں مغرب میں اس معاملے کو بغور دیکھنے کی ضرو رت ہے ۔ہم ایران کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ایک نظریے کے ساتھ ریاست ہے لیکن درحقیقت ایران ریاست کے اندر ایک نظریہ ہے‘‘۔
ٹونی بلیئر نے اس انٹرویو میں ایران میں انقلاب اور عر ب بہار کے درمیان مماثلتوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انقلاب میں کردار ادا کرنے والے مختلف گروپوں کا خیال کیا تھا کہ اس سے ایران میں لبرل اثرونفوذ کی راہیں کھل جائیں گی مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا ،اس کے بارے میں واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا : ’’ مسئلہ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جب بہتر طور پر منظم اور تعداد میں زیادہ اسلام پسندوں اور بڑی تعداد مگر غیر منظم عوام کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور زیادہ منظم لوگ جیت جاتے ہیں‘‘۔
’’ان کے خیال میں عرب بہار کے بعض حصوں میں یہی کچھ ہوا ہے۔اس لیے مغرب نے ، جو اس معاملے کو ملک کے بجائے اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا، یہ خیال کیا تھا کہ اس سے ایران میں بڑی امید پیدا ہوجائے گی لیکن عملاً معاملہ اس کے برعکس ہوا تھا‘‘۔
ایران میں 1979ء میں برپا شدہ انقلاب کے نتیجے میں صدیوں سے جاری شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور امریکا کے حمایت یافتہ رضا شاہ پہلوی کے اقتدار کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد سخت گیر شیعہ علماء برسر اقتدار آگئے تھے۔ اس انقلاب کی ہر سال یکم فروری سے ایک ماہ تک سالگرہ تقریبات منائی جاتی ہیں۔یادرہے کہ یکم فروری 1979ء کو اس انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی 14 سالہ جلاوطنی ختم کرکے فرانس سے ایران لوٹے تھے اور پھر وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر بن گئے تھے۔
گذشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ یکم فروری ( بروز جمعہ) کو ٹرینوں ، کشتیوں اور گرجا گھروں میں صبح ٹھیک 9 بج کر 33 منٹ پر سائرن بجائے گئے تھے۔ چالیس سال قبل عین اسی وقت آیت اللہ خمینی کا چارٹر طیارہ ائیرفورس بوئنگ 747 تہران کے مہر آباد میں واقع بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا تھا۔
امریکا نے ایک مرتبہ پھر ایران کو انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس ملک کی گذشتہ چالیس سال کی تاریخ حکمراں نظام کی وعدہ خلافیوں سے عبارت ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ:’’ آیت اللہ خمینی جب 1979ء میں ایران لوٹے تھے تو انھوں نے ایرانی عوام سے لاتعداد وعدے کیے تھے ۔انھیں انصاف ، آزادی اور خوش حالی دلانے کا وعدہ کیا تھا مگر چالیس سال کے بعد ایران کے حکمراں نظام نے ان تمام وعدوں کو توڑ دیا ہے اور اس کے گذشتہ چالیس سال ناکامی سے عبارت ہیں‘‘۔
اس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ’’ خمینی نے کہا تھا کہ ماضی کی ناانصافی جاری نہیں رہے گی‘‘ مگرحکومت مخالف پُرامن سیاسی کارکنان کو دبانے کے لیے ان کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ، انھیں قید میں ڈالنے اور کوڑوں کی سزائیں حکام کی انتہا پسندی کو ظاہر کرتی ہیں‘‘۔
محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’ خمینی نے اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا وعدہ کیا تھا لیکن آج کے ایران میں میڈیا کے لیے سب سے زیادہ جبر واستبداد کا ماحول ہے۔ رجیم نے دسیوں صحافیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا ہے اور ان کے خاندانوں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔انٹر نیٹ کو بلاک کیا جارہا ہے اور سوشل میڈیا تک رسائی پر پابندیاں عاید کی جارہی ہیں‘‘۔
محکمہ خارجہ نے ایک اور ٹویٹ میں لکھاتھا کہ ’’ خمینی نے ایرانی عوام سے مادی اور روحانی خوش حالی کا وعدہ کیا تھا لیکن چار عشرے کےبعد ایران کے بدعنوان نظام نے ملکی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ایران کے شاندار ورثے کو بے توقیر کیا ہے اور ایران کو ناکامیوں کے چالیس سال دیے ہیں‘‘۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کررکھا ہے اور وہ ایران کے خطے میں ’’ تخریبی اثر ونفوذ‘‘ کے توڑ کے لیے اقدامات کررہی ہے۔صدر ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان جولائی 2015ء میں طویل مذاکرات کے بعد طے شدہ جوہری سمجھوتے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور پھر نومبر میں اس کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جن کے نتیجے میں ایرانی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔
سابق برطانوی وزیراعظم نے انٹرویو میں مزید کہا کہ ایران انتہا پسند گروپوں کے ذریعے اپنے اثر ونفوذ کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی ملیشیا اس کی مثالیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بھی حمایت نہیں کرتا ہے اور اس نے شام میں اسد رجیم کی حمایت کی ہے۔
’’ جوہری سوال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جوہر ی طاقت کے ساتھ یہ نظام بہت ہی تباہ کن اور خطرناک ہوگا لیکن جوہری ہتھیاروں کے حصول کے بغیر بھی ایران عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اثر ونفوذ رکھتا ہے‘‘۔انھوں نے مزید کہا۔
ٹونی بلیئر کے خیال میں مشرقِ اوسط میں کشمکش کے حوالے سے مغرب کا محدود نقطہ نظر بھی ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے اس کی مزید وضاحت کی ہے کہ ’’ یہ سنی بمقابلہ شیعہ یا ایران بمقابلہ سعودی عرب ہے‘‘۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’ میرے خیال میں اس میں ضروری نکتہ عنقا نظر آتا ہے۔ آج مشرقِ اوسط بھر میں جدوجہد یا کشمکش اس معاملے میں ہے کہ کیا آپ کا مذہبی عقیدہ معاشرے کے عمومی حصے کے طور پر ہے یا آپ ایک مذہب کے بارے میں ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں اور یہ اسلام کے بارے میں ایک سیاسی نظریہ ہے جو مطلق العنانیت بن جاتا ہے۔ایران کے بارے میں ادراک کے حوالے سے یہ ایک اہم بات ہے کہ اس نے اسی سے نظریہ کشید کیا ہے‘‘۔
ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے کے حل کے بارے میں جب ٹونی بلیئر سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ایک مضبوط اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور اس پر کھلی آنکھوں سے نظریں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایران کیا کررہا ہے۔میرے خیال میں ایران خطے بھر میں عدم استحکام پیدا کرنے والی واحد بڑی قوت ہے۔ان حالات میں ہمیں اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔اس لیے ہمیں اس کو پیچھے دھکیلنے کے لیے ایک مضبوط اتحاد تشکیل دینا چاہیے اور ان ممالک کی مدد کرنی چاہیے جن کی آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکیں اور آگے بڑھیں‘‘َ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں آیندہ ہفتے ہونے والی کانفرنس اس سمت کی جانب ایک اہم قدم اور اہمیت کی حامل ہے۔یہ کانفرنس امریکا ، برطانیہ ، یورپ اور خطے میں موجود طاقتوں کے درمیان اتحاد کی تشکیل کے ضمن میں بھی اہمیت کی حامل ہے۔خطے کے ان ممالک کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ ایران ایک شیعہ قوم ہے یا ایران سے ایرانی مفادات کی بنا پر معاملہ کیا جارہا ہے بلکہ وہ اس اصول پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ مذہب کی سیاست میں اپنی ایک خاص جگہ ہونی چاہیے‘‘۔
امریکا کا محکمہ خارجہ 13 اور 14 فروری کو پولینڈ کے ساتھ مل کر ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی کررہا ہے ۔ اس کا موضوع مشرقِ اوسط اور بالخصوص ایران ہے۔اس میں ستر سے زیادہ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس کانفرنس کو مسترد کردیا ہے۔
جبکہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فاکس نیوز سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اس کانفرنس میں مشرقِ اوسط میں استحکام ، امن ، آزادی اور سلامتی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا اور ا س کا اہم نکتہ یہ ہوگا کہ ایران کا کوئی تخریبی اثر ونفوذ نہیں ہونا چاہیے۔اس کو عدم استحکام کا کردار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔