اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، قرآن کریم میں بھی یہ ارشاد فرمایا کہ ” کیاتم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ میں نے تم کو عبث پیدا کیا ہے”نہیں نہیں ہر گز نہیں ،تمام مخلوق کو باری تعالیٰ نے اپنے عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے،مسلمانوں کا تو عبادت بھی مسرت ہے ،ہمارے ہاں خوشی کے دودن(عیدالفطروعیدالاضحی) باری تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیںاور ان دنوں کی افتتاح بھی سجدئہ شکر سے ہوتا ہے ،ان خوشیوں کے دنوں میں بھی ہمارے بعض مسلمان بھائی اتنا احتیاط کرتے ہیں ،کہ ان خوشیوں کے دنوں میں بھی ہم سے ایسا کوئی کام سرزد نہ ہو جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت ہورہی ہو۔
دراصل یہ دنیا مشرق ومغرب میں بھی بانٹ گئی ہے، اہل مغرب ادرئہ خاندان کو کھو چکے ہیں ،مغرب میں محبت کے اظہار ،بے قرار دلوں کے قرار اور چلتے ہوئے جذبوں کے لیے گردوغبار بن گیا ہے،ان لوگوں نے اکثر محبت مجازی کو بنیاد رکھا ہو اہوتاہے، اس کے برعکس مشرق میں خاندانی انتظام قائم ہے ،لیکن فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم لوگ مغرب ولوں کی طرح ویلنٹائن یعنی جھوٹی محبت کے شکار ہوجاتے ہیں۔دنیا میں جو بھی کوئی خاص دن یا کوئی خاص چیز ہوتی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی پس منظر اور تاریخ ہوتا ہے، تو آیئے ویلنٹائن ڈے کی پس منظر پر ایک سرسری نظر دھوڑاتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی سب سے پہلی روایت روم میں مسیحیت کے دور سے کچھ قبل ملتی ہے، روم کے یہ کفار ومشرکین 15فروری کو اپنے بتوں اور دیوتائوں کے نام کر دیتے تھے ،ان کے دیوتا بھی مختلف ہوتے تھے ،مثلاً بارش کا الگ دیوتا، محبت کا الگ دیوتا، شادی کا الگ دیوتا وغیرہ وغیرہ ان لوگوں کا یہ طریقہ بھی ہوا کرتا تھا کہ ان کے بڑے لڑکوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیتے تھے، پھر لڑکیاں باری باری آیا کرتی تھی اور ایک ایک رقعہ اٹھا لے جاتی تھیں، تو ان کے قسمت میں جو لڑکا ہوتا تھا،وہ ان کے بوس وکنار ہوجایا کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے محبت کے زلف کی شکار ہوجایا کرتی تھیں، پھر بعض لڑکیاں ان لڑکوں کے ساتھ شادی بھی کرلیتی تھی۔
جب روم میں عیسائیت کا چرچہ عام ہونے لگا تو انہوں نے 14 فروری کو اس مقصد کے لیے خاص کر دیا۔اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ روم کے بادشاہ claudius نے ایک دفعہ میدان کارزار جانے کا اعلان کیا، تو اس وقت جب روم کے بادشاہ نے اپنے رعایا اور فوج پر نظر ڈالا تو وہ بہت کم تھے، ان کے قلیل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عورتیں مردوں کو جنگ لڑنے کے لیے نہیں چھوڑتی تھیں، تو اسی وقت روم کے بادشاہ نے شادیوں پر پابندی لگا دی اور اعلانِ عام کر دیا کہ آج کے بعد جس نے شادی کی تو اس کو سرعام لٹکا دیا جائے گا،اس وقت ایک عیسائی پادری ”سینٹ ویلنٹائن ”خفیہ طریقے سے لوگوں کے درمیان رشتہ ازدواج قائم کرتے تھے اور لوگوں کی شادیاں کیا کرتے تھے، جب اس کا علم روم کے بادشاہ کو ہواتو بادشاہ نے وارنٹ گرفتاری جاری کردی اور اس عیسائی پادری کو جیل میں ڈال دیاگیا ،ہوا یوں کہ اس بادشاہ کی ایک بیٹی تھی جوحسن میں پری کی مشابہ تھی اور حسن میں اپنی مثال آپ تھی،اس عیسائی پادری کے حال احوال پوچھنے کے لیے ہر وقت جیل آیا جایا کرتی تھی تو اسی وقت عیسائی پادری اس کے زلف کا شکاری بن گیا لیکن کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ ان کے مذہب میں پادریوں کے لیے نکاح کرنا درست نہیں تھالیکن پھر اپنے محبت کے اظہار کے لیے جھوٹے خواب بیان کرتے تھے کہ میں خواب دیکھا کہ ہاتف غیبی سے مجھے نداء آئی کہ اگر کوئی پادری اس 14فروری کو انسانی جذبات کا اظہار کریں تو اس میں کوئی مذائقہ نہیںہے اِسی بہانے سے پادری نے بادشاہ کی بیٹی سے اپنا خواہش پورا کر لیا، مگر جب اس ”سینٹ ویلنٹائن”کے موت کا وقت قریب آیا تو اس نے ایک خط لکھا جس کے آخر میں لکھا تھا کہ from your valentine تو اس وقت سے یہ جملہ چلا آرہا ہے اور آج کل ویلنٹائن کارڈوں پر بھی یہ جملہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔
مسلم معاشرے میں اس غیراسلامی تہوار کی پذیرائی اور قبولیت کی ذمہ داری جہاںسٹلائیٹ چینلز، انٹرنیٹ اور ان مسلم ممالک کے میڈیاپر عائد ہوتی ہے وہاں والدین اور اساتذہ بھی اس شر کے فروغ میں برابر کے ذمے دار ہیں ۔ اگر والدین اپنی اولاد کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کریں اور انہیں دشمنانِ اسلام کے ان حملوں سے آگاہ کرتے رہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں میں دینی تشحص بیدار کریں اور ان میں دین کا صحیح شعور پیدا کریں توپھر یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ اسلام کے دشمن ان چور دروازوں سے مسلمانوں کی صفوں میں شبِ خون مار سکیں ۔ اسی طرح ائمہ کرام اور علمائے دین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ عصرِ حاضر کے تمام فتنوں اور خصوصاً ایسے فتن جو مسلمانوں کے اخلاق،ان کی دینی حمیت اور انکے عقائد کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہوں ان کی انہیں نہ صرف پوری شد ت کے ساتھ مخالفت کرنی چاہئے بلکہ مسلم امہ میں ان خطرات کے خلاف بیداری کی بھر پور مہم کا آغاز کرنا چاہیے اور اس کام کے لیے تمام دستیاب وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے ۔
آخر میں مسلم نوجوانوں، بھائیوں اور بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں سے التجا ہے کہ خداراکفار کی پیروی کرکے اپنے آپ کو تباہی کے گڑہوں میں مت دھکیلو۔ ان کو خوش کرکے اللہ کے غضب کو آواز مت دوکیوں کہ جو اللہ کے دشمنوں کو خوش کرتا ہے وہ اللہ کو ناراض کرتا ہے اور اللہ کی ناراضگی درحقیقت اخروی بربادی ہے، وقتی خوشی کی خاطر دائمی رنج و الم سمیٹنا یقینا شدید خسارے کا سودا ہوگا،اگر محبت ہی کرنی ہے تو خود کو اللہ اور اس کے رسول ا کی محبت میں فنا کرلو ،محبت کا حقیقی مفہوم پالوگے ، محبت کی معراج حاصل ہوجائے گی، شیطان کے ناپاک چنگل سے نکل جاؤ گے اور اللہ تمہیں دنیا اور آخرت کی حقیقی اور دائمی خوشیوں سے سرفراز فرمائے گے غافلو!جان لو کہ جوانی اللہ رب العزت کی ایک بے بہا نعمت ہے اسے ضائع نہ کرو۔اس کی صبح ،اسکی شام اور اس کی شب اللہ کی یاد، اسکے ذکر اور اسکے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میںبسر کرو،اس جوانی اور وقت کی قدر کرو کہ یہ دونوں چیزیں ایک بار رخصت ہوکر دوبارہ لوٹ کر نہیں آتیں،اپنے دن کو اللہ اور رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں بسر کر واور دعائے نیم شبی کا خود کو عادی بناڈالو،اپنی آنکھوں کی اس طرح حفاظت کرو کہ وہ کسی نامحرم کے شوقِ دید سے آلودہ نہ ہوں نہ ہی عریانی اور فحاشی کو اپنے اندر سمو سکیں،اپنے کانوں کواس طرح آلودگی سے بچاؤ کہ وہ کسی کی غیبت نہ سنیں اور نہ کوئی فحش بات اور کلام ان تک پہونچے ۔
اپنی زبان کی اس طرح حفاظت کرو کہ نہ کسی کی غیبت کی مرتکب ہو نہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ ہی دشنام طرازی کاذریعہ بنے ۔تمہارے ہاتھ تمہارے پاؤں غرض ایک ایک عضو اللہ کی مرضی کا تابع بن جائے ۔ سب سے بڑھ کر تمہارا دل جو تمام آرزوؤں ،تمناؤں اور خواہشات کا منبع اور مرکز ہے وہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار بن جائے تو پھر تمہیں خود کو خوش کرنے کے لیے کسی ویلنٹاین ڈے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی کہ اللہ اور اسکے پیارے رسول ا کی سچی محبت کا راز پالینے کے بعد کسی اور کی محبت کی ضرورت او ر گنجائش باقی نہیں رہتی۔
قارئین کرام آج کل تو ہم مسلمان بھی ان اہل مغارب سے اتنے متاثر ہیں کہ ہم بھی اس14 فروری کو محبت کا دن کہتے ہیں اور اپنی طرف سے ایس ایم ایس بنا کر بھیجا کرتے ہیں ۔خدارا!اے مسلمانوں اپنے مقصدِ زندگی کو جان لو اور اس پر ثابت قدم رہو ،اللہ تعالیٰ ہم کو ان اہل مغارب کی پیروی سے نجات دلا کر راہِ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)