بہت خوبصورت ہے بارش مگر یہ

Rain

Rain

تحریر : صائمہ جبین مہک

؂فلک پر ابھرتی گھنگھور گھٹائیں اور درختوں کے پتوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوائیں دلِ مضطرب کو لبھانے لگتی ہیں۔ الماری میں رکھے قلم و قرطاس بمعہ ایک گرماگرم چائے کی پیالی کے ساتھ میز کے نقش و نگار میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اور کھڑکی کا پردہ ہٹا کر ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کا مزہ لیتے ہوئے بھیگے ہوئے قلم کے ساتھ ہم جیسے شاعر جذبات کے نقوش مجسم کرنے لگتے ہیں۔ مگر ایک شعر کہیں غزل کے مصرعوں کے ساتھ لڑھک جاتا ہے جب چھت سے ٹپ ٹپ کرتا پانی کمرے میں رکھی چیزیں بھگونے لگتا ہے۔

بہت خوبصورت ہے بارش مگر یہ
غریبوں کی چھت کیوں گرانے لگی ہے

میں اس کالم میں کوئی شعری روداد بیان کرنے نہیں جا رہی۔ میرے قارئین جن کی بصارتیں میرے قلم کے ساتھ میرے لفظ چنتی ہیں وہ خوب واقف ہیں کہ میرا یہ شعری وجدان میری سرزمین کے ٹکڑوں کے ساتھ بھی دکھ سکھ کی باتیں بانٹتا ہے۔جہاں بارش مجھ جیسے کئی افراد کو لبھاتی ہے وہاں یہی بارش لوگوں کے لیے بے شمار مسائل لے کر آتی ہے۔ بارانِ رحمت کو میں مسئلہ ہر گزنہیں کہوں گی لیکن اس مملکت کے مقتدر طبقات سے ضرور گزارش کروں گی کہ عوام الناس کے ان مسائل کی طرف ضرورتوجہ دیں جہاں بارش ان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔

جنوری و فروری کی بارشیں جہاں کسانوں کی آنکھوں میں چمک لے کر آئی ہیں وہاں روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کے لیے بے شمار مسائل بھی لے کر آئی ہیں۔بارش سردی کی ہو یا گرمی کی سفری مشکلات کا سامنا ہر حال میں کرنا پڑتا ہے۔بارش میں سفر کرنے کا اتفاق تو ہوش سنبھالنے کے بعد متواتر رہا ہے لیکن کبھی اس مسئلے کو اتنی شدت سے سوچا نہیں جتنا سوچ کر آج قلم اٹھایا اورکالم لکھنے بیٹھ گئی۔ لاہور سے واپسی کے وقت راستے میں چھ گھنٹے بھیگے ہوئے موسم کا ساتھ رہا۔ بارش سے متعلقہ موسیقی کا مزہ لینے کے ساتھ تین چار نظمیں بھی تراش ڈالی لیکن لاری اڈے کی کیچڑ میں لپٹا ہوا منظر نہیں بھولا جہاں کار سے اتر کر بس تک جانا محال تھا۔

گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں ، جگہ جگہ بارش کے پانی کے گڑھے اور سفری روداد سناتے ہوئے مسافروں کے چہرے میرے وجدان میں نہ جانے بارش کے کتنے موسموں کا احوال بیان کر گئے۔یہ دنیا مسافر خانہ ہے اور یہاں ہم سب مسافر ہیں یہ بات تو طے ہے کہ مقررہ مدت کا سفر طے کرنے کے بعد دو گز زمین کا ٹکڑا ہماری منزل ہے لیکن جیتے جی ان سانس لیتے ہوئے مسافروں کی بھی کوئی نہ کوئی منزل ہوتی ہے، کوئی اپنے پیاروں سے ملنے جا رہا ہے،کوئی خوشیوں میں شریک ہونے جا رہا اور کوئی روتا ہوا کسی پیارے کے دکھ میں شریک ہونے جا رہا ہے، دکھ سکھ کے موسم بارش دھوپ ، سردی گرمی تو نہیں دیکھتے اور ہر انسان کو ہر حال میں سفر کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ عوام الناس کی سفری مشکلات کو آسان بنایا جائے۔

بہت سی ترامیم کے ساتھ کچھ نگاہِ کرم ادھر بھی کہ لاری اڈوں کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مناسب دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی آمدوروفت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے محض کڑوڑوں کی مالیت لگا کر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ نہ کیا جائے بلکہ لاری اڈوں کی حالت بھی بہتر بنائی جائے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے لاری اڈوں کو پختہ بنایا جائے تاکہ سفری مشکلات کو ختم کیا جا سکے۔

اس ترمیم کے لیے جہاں مقتدر طبقات ذمہ دار ہیں وہاں عوام میں بھی یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ صفائی ستھرائی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے لاری اڈوں کو گندگی کا ڈھیر نہ بنایا جائے ، جہاں کالم لکھنے کا مقصد ان لاری اڈوں کو پختہ بنانا ہے وہاں عوام سے بھی اپیل کرنا ہے کہ مسافر خانوں اور لاری اڈوں پر بے جا گندگی پھیلانے سے بہتر ہے کہ کوڑا کرکٹ کو کوڑادانوں میں پھینکا جائے، اور اڈہ مالکان کی بھی ذمہ داری ہے کہ لاری اڈوں کی پختگی کے ساتھ ساتھ وہاں کی صفائی ستھرائی کا بھی مناسب انتظام ہو۔ ہمارے پیارے ہر روز سفر میں ہوتے ہیں، نوکری کے لیے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے بھی روزانہ سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سڑکوں کو پختہ کرنے کے ساتھ ساتھ لاری اڈوں کی پختگی بھی نہایت ضروری ہے۔

ہمارے ہاں ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جو اڈے پختہ ہیں وہ گر دو غبار تلے دب کر دوبارہ مٹی ہو جاتے ہیں تو اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان اڈوں کی مناسب صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال کا بھی انتظام کیا جائے ہمارے ملک میں بیشتر تعمیرات مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی کی جانب چلی جاتی ہیں۔میرا کالم جتنے بھی لوگوں کے ہاتھ میں ہے ان سے سوال ہے کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے لاری اڈوں کو نہ صرف پختہ ہونا چاہیے بلکہ ان کی مناسب دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہے؟ یہ ملک جہاں امراء کا ہے وہاں غریب طبقوں کا بھی ہے۔ جہاں کئی کئی کنال پر پھیلے بنگلوں کے مالک اپنی چمکتی دمکتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں وہاں ان غریب عوام کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہیے جو ہر روز دھکے کھا کر گندگی میں سفر کرتے ہیں۔مقتدر طبقات سے گزارش ہے کہ کچھ نظرِ کرم ان مسائل کی طرف بھی کرتے ہوئے عوام الناس کو صاف ستھر ا پاکستان مہیا کیا جائے۔ آپ میں سے کتنے لوگ اس تبدیلی کے بھی حق میں ہیں اپنی آراء ضرور دیجئے۔ s.j.mehak@gmail.com

Saima Jabeen Mehak

Saima Jabeen Mehak

تحریر : صائمہ جبین مہک
s.j.mehak@gmail.com