اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم تمام ترانحصارآئی ایم ایف پر نہیں کر رہے، آئی ایم ایف معیشت میں بہتری کے لیے صرف ایک آپشن ہے ،آئی ایم ایف نے کوئی غیرمعاشی شرط نہیں لگائی اس سے واضح ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف نے شرائط رکھی ہیں۔ اب یہ مالیاتی ادارہ ہے اسی تناسب سے ہی شرائط لگائے گا،آئی ایم ایف سے رجوع معیشت کی بہتری کے لیے کیاجارہا ہے تواس کی شرائط بھی معاشی ہی ہوں گی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ مزاکرات جاری ہیں جیسے ہی اچھاپروگرام فائنل ہوامعاہدہ کرلیں گے۔اس کے دورروزبعد وفاقی وزیرخزانہ کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مزاکرات جاری ہیں جب آئی ایم ایف کی جانب سے اچھاپروگرام ملے گاتومعاہدہ کرلیں گے ،معاہدے پردستخط آنکھ بندکرکے نہیںکریں گے۔وزیراعظم عمران خان فنڈز کے متبادل انتظام میںکامیاب رہے ہیں اب ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ بہترپروگرام کے لیے بات چیت کاوقت مل گیاہے ۔موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے علاوہ دیگرانتظامات پربھی توجہ مرکوزکیے ہوئے ہے، ہماری حکومت پہلی سول حکومت ہے جوآئی ایم ایف سے ہٹ کراتنے بڑے پیمانے پرمالی انتظام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ،آئی ایم یف کے بغیرگزاراممکن ہے تاہم ملکی معیشت کی ضروریات کے پیش نظر مختلف آپشنزکاموازنہ کرتے ہوئے انہیںبروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
ایک خبریہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے کہنے پربجلی کی قیمتوںمیں اضافے اورشرح سودبڑھانے سے انکارکردیا۔وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی ڈائریکٹرکرسٹین لیگارڈسے ملاقات دبئی میںہونے والی ورلڈگورنمنٹ سمٹ کے موقع پرہوئی ۔چالیس منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں عمران خان نے اپنی حکومت کے کرپشن کے خلاف جاری اقدامات سے آگاہ کیا۔آئی ایم ایف کی سربراہ نے اقدامات کوسراہتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کے کرپشن کے خلاف اقدامات قابل ستائش ہیں۔ملاقات میں ملکی معاشی صورت حال اوربیل آئوٹ پیکج پربات کی گئی۔وزیراعظم عمران خان کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف کے پاکستان سے تعاون کوسراہتے ہیں ۔حکومت پاکستان معیشت کے استحکام کے لیے پرعزم ہے ،حکومت پاکستان معاشی اصلاحات کررہی ہے اورملک میں سماجی تحفظ کوفروغ دے گی۔
عالمی مالیاتی ادارے کے اعلامیے کے مطابق منیجنگ ڈائریکٹرکرسٹین لیگارڈ کاکہناتھا کہ وزیراعظم عمران خان سے اچھی اورتعمیری ملاقات ہوئی جس میںپاکستان میں حالیہ معاشی ترقی اورمستقبل کے امکانات پربات چیت ہوئی ،پاکستان کے ساتھ جاری آئی ایم ایف پروگرام پربات چیت کے تناظرمیں گفتگوہوئی جس میںمیںنے اس عزم کااعادہ کیاکہ آئی ایم ایف پاکستان کی مددکے لیے تیارہے ۔آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے مطابق فیصلہ کن پالیسیوں اورمعاشی اصلاحات کے مضبوط پیکج سے پاکستانی معیشت میں استحکام آئے گا۔پاکستان کی حکومت درست سمت معاشی اقدامات کررہی ہے اورمعیشت کی بہتری کے لیے پاکستان سے تعاون جاری رکھیں گے۔اعلامیے کے مطابق پاکستان اورآئی ایم ایف معاشی اصلاحات پرمتفق ہیں۔متحدہ عرب امارات روانگی سے قبل وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کے ساتھ ایسی شرائط طے ہوں جن سے عوام پرکوئی بوجھ نہ پڑے ۔ فواد چوہدری کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایسی شفاف ڈیل چاہتے ہیںجوقلیل مدت میں پاکستان کے لیے مددگارہواورہمارے طویل مدتی معاشی مقاصد پر اثر اندازنہ ہو، انہوںنے کہا کہ پاکستان کسی متعلقہ بیل آئوٹ پیکج کاخواہاںہے ایسی شرائط نہیں چاہتے جن سے پاکستان کی شرح نموکونقصان پہنچے۔ ایک خبریوں ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے ایک بارپھرڈومورکامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آبادمالیاتی پیکج لینے کے لیے مزیداقدامات کرے۔
آئی ایم ایف کے پاکستان مزیداقدامات کرے کہنے سے یہ واضح ہوتاہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پرپہلے ہی عمل کررہاہے۔ عمران خان کی حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے کوآئی ایم ایف بھی تسلیم کرچکاہے ۔ آئی ایم ایف کایہ کہناکہ پاکستان مزیداقدامات کرے یہ بھی واضح کرتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی طرف سے اس کی شرائط پرعمل درآمدکوتسلیم توکرتاہے تاہم وہ ان شرائط پرعمل کرنے سے مطمئن نہیں ہے اس لیے عالمی مالیاتی ادارے نے مزیداقدامات کر نے کاکہاہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان کی ناکافی ٹیکس آمدن ،بینکوں سے قرض لینے کی زیادہ شرح اورمعاشی اصلاحات کی رفتارکم ہونے پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک نجی ٹی وی کے مطابق آئی ایم ایف کاکہناہے کہ پاکستان نے نیاقرض لیناہے توبجلی،گیس مہنگی کرنی ہوگی ،معاشی اصلاحات کی رفتاربھی تیزکرناہوگی ، نئے ٹیکس بھی لگاناہوں گے۔وزیرخزانہ کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف ہمدردی کی بنیادپراقدامات نہیں اٹھاتا۔ اس بات سے توسب اتفاق کریں گے کہ جب بھی کوئی کسی سے قرض لیتاہے تووہ کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہی لیتا ہے۔قرض لینے والاکسی ایسی مشکل میںہوتاہے کہ قرض لینے کے علاوہ اس مشکل سے نکلنے کااس کے پاس کوئی آپشن نہیںہوتا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ قرض دینے والاقرض لینے والے کی مشکلات دورکرنے کاسبب بنتاہے۔ قرض مل جانے سے قرض لینے والے کی مشکلات دورنہیںتوکم ضرورہوجاتی ہیں۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان سے قرض لینے والاکتنی بڑی مشکل میں ہے، ان سے قرض مانگنے والاکتنی بڑی مجبوری میں ہے ، اس لیے وہ اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقروض کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکرقرض دینے والے قرض مانگنے والے سے اپنی من پسندشرائط منوالیتے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف بھی جانتاہے کہ پاکستان کس طرح کی معاشی مشکلات میں گھراہواہے۔ وہ یہ بھی جانتاہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لیناپاکستان کے لیے کتناضروری ہے۔
آئی ایم ایف ایسے قرض دینے والوں میں سے ہے جوقرض لینے والے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جب بھی قرض لیاہے اس نے ایسی ہی شرائط رکھی ہیں جوشرائط اس نے اب رکھی ہیں کہ بجلی ،گیس مہنگی کرو یہ کرو و ہ کرو۔جب تک آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل نہ کیاجائے قرض نہیںملتا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ قرض دینے والا اپنے قرض کی واپسی کے لیے اقدامات بھی کرتاہے اسی طرح آئی ایم ایف بھی اس لیے شرائط لگاتاہے تاکہ اس کے قرض کی واپسی ممکن ہوسکے۔آئی ایم ایف کی شرائط پرعمل کرنے سے حکمرانوںکی مشکلات توکم ہو جاتی ہیں کہ انہیںآئی ایم ایف سے قرضہ مل جاتاہے عوام کی مشکلات اوربڑھ جاتی ہیں کہ بجلی ،گیس کے بلوںمیں اضافہ ہوجاتاہے۔وزیرخزانہ درست ہی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ہمدردی کی بنیادپراقدامات نہیں اٹھاتا اس جملے میں یہ جملہ بھی موجودہے کہ آئی ایم ایف اپنے مفادات کی بنیادپراقدامات اٹھاتاہے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کوقرض پاکستان کی معاشی مشکلات دورکرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے کسی مفادکے تحت ہی دیتا ہے۔
اس جملے سے وزیر خزانہ یہ بھی تسلیم کررہے ہیں آئی ایم ایف کوپاکستان کی معاشی مشکلات دورکرنے سے کوئی دل چسپی نہیں۔وزیرخزانہ اسدعمرنے کہا کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کی معیشت کے لیے اقدامات پراتفاق رائے ہوا۔ دوسرے لفظوںمیں عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط مان لی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پردستخط کرناچاہتے ہیں جب معاہدہ ہوگاعوام کوبتایاجائے گا۔ اسلام آبادمیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائودکاکہناہے کہ ہماری پالیسی اورگاڑی بالکل ٹھیک چل رہی ہے۔
روپے کی قدرمیںکمی کافائدہ آئندہ پانچ ماہ میںنظرآئے گا۔ملک میں درآمدات کم اورسات ماہ میں دوارب ڈالرکی بچت ہوئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے پہلے سات ماہ میں چونتیس اشاریہ چھبیس ارب ڈالرجب کہ رواںمالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران بتیس اشاریہ چون ارب ڈالررہیں۔گزشتہ مالی سال تجارتی خسارہ اکیس اشاریہ تین ارب ڈالرتھا رواںمالی سال انیس اشاریہ دوارب ڈالرہے ۔رواں سال برآمدات سات ماہ میں تیرہ ارب ڈالرسے زیادہ رہیں۔
برآمدات میں صرف چارفیصداضافہ ہواہے۔ آئی ایم ایف سے مزاکرات سے متعلق ان کاکہناتھا کہ آئی ایم ایف نے بجلی اورگیس کی قیمت بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی۔ صرف یہ بات ہوئی کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میںجائیں گے ۔ مشیرتجارت کی پریس کانفرنس سے کئی سوالات جنم لے چکے ہیں کہ وزیرخزانہ نے کہاتھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جاناآخری آپشن ہوگا۔ اس بات کوآسان لفظوں میںیوں سمجھ لیں کہ وزیرخزانہ نے کہاتھا کہ آئی ایم ایف سے قرض اس وقت لیں گے ،آئی ایم ایف سے معاہدہ اس وقت کریں گے جب ہمارے پاس معاشی مشکلات سے نکلنے کااورکوئی راستہ نہیں رہے گا۔ عمران خان کی حکومت اورآئی ایم ایف کے درمیان معاشی اصلاحات پراتفاق (پاکستان کاآئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا) واضح کرتاہے کہ عمران خان کی حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے قرض لینے کے سواکوئی آپشن نہیںبچا اس لیے آخری آپشن کواستعمال کیاجا رہا ہے۔
مشیر تجارت کہتے ہیںکہ پاکستان کی معیشت درست سمت چل رہی ہے ،ایساہی ہے توآئی ایم ایف کی شرائط مان کراس سے قرض لینے کی ضرورت کس لیے پیش آئی۔ وزیرخزانہ کے مطابق آئی ایم ایف آخری آپشن ہے کہ معیشت مشکلات میں ہے مشیرتجارت کہتے ہیں کہ معیشت درست سمت چل رہی ہے۔ قارئین خودہی غورکرتے رہیں کہ دونوں شخصیات کے بیانات میںکیافرق ہے۔وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ عوام کوتکلیف دے کرآئی ایم ایف سے سمجھوتہ نہیںہوگا۔ قارئین وزیر خزانہ ، مشیرتجار ت کے بیانات کے ساتھ وزیرخارجہ کے بیان کاموازنہ بھی کرلیں۔سیالکوٹ میں اپنی رہائش گاہ پرمیڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینئرراہنماخواجہ آصف کاکہناہے کہ عمران خان کے لہجے سے محسوس ہوتاہے کہ وہ انتہائی پریشان ہیں ۔حکومت خوداپنی دشمن ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں حکومت نے صرف پرانے منصوبوںپرتختیاں ہی لگائی ہیں ۔ خواجہ آصف کہتے ہیں نظام کوخطرہ ہے اورہمیں تحفظات ہیں پھربھی چاہتے ہیںنظام چلے ،حکومت نوٹ چھاپ رہی ہے اب تک چودہ سوارب چھاپ چکی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ عمران خان جوبائیس سال کہتے رہے اس پرعمل درآمد نہیں کیااب انہیں اکنامک ایڈوائزربھی چھوڑ کر جارہے ہیں ،پہلی مرتبہ ایک وزیراعظم آئی ایم ایف کے پاس جارہاہے۔ خواجہ آصف کہتے ہیں عمران خان نے کہاتھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہترہے خودکشی کرلوں۔مریم اورنگ زیب نے وزیراعظم کی آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات پرکہا کہ حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرچکی ہے۔ انہوںنے کہا کہ پہلی حکومت ہے جس نے چوردروازے سے آئی ایم ایف کی شرائط پرپیشگی عمل کیا۔حکومت آئی ایم ایف سے پیکج لینے سے پہلے ہی مہنگائی کابم کراچکی ہے۔ روپے کی قدرمیں پینتیس فیصدسے زائدکمی ،بجلی، گیس کی قیمتوں ریکارڈ اضافہ پہلے ہی کیاجاچکاہے۔آئی ایم ایف کے پیکج سے پہلے ہی حکومت حج سمیت ہرسبسڈی ختم کرچکی ہے۔ قوم کوبتایاجائے اب کون سی مزیدشرائط طے کی جا رہی ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ حکومت میں آنے سے پہلے اوربعدمیں پی ٹی آئی راہنماآئی ایم ایف جانے کی تردیدکرتے رہے۔عوام اورپارلیمان کو بتایا گیاکہ آئی ایم ایف نہیں جائیں گے۔ اس یقین دہانی کے باوجود حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پاچکاہے تواسے خفیہ کیوں رکھاجارہاہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے کتناقرض اورکن شرائط پرلے رہی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ ملکی معیشت کوبحران میں ڈال کرآئی ایم ایف پیکج لیاجارہاہے۔سالانہ بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کامطلب حکومت ملکی معیشت تباہ کرچکی ہے۔شیری رحمان کاکہناہے کہ معاہدے کامطلب ہے کہ اس بارملک کاسالانہ بجٹ آئی ایم ایف سے آئے گا۔ عوام نئے مہنگائی سونامی کے لیے تیار رہیں۔
بجٹ اہداف آئی ایم ایف تیارکرے گا۔اس نے حکومت کوروپے کی قدرمزیدکم کرنے کی شرط بھی رکھی ہے۔آئی ایم ایف کے کہنے پرصوبوںکابجٹ کم کیا جا رہا ہے ۔ ایک قومی اخبارمیں ایک رپورٹ ان الفاظ میں شائع ہوئی ہے کہ آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کے مطالبے پرزیادہ تراقدامات کیے جائیں گے۔وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے شرح پالیسی ،ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قیمت اورایف بی آرکے ٹیکس جمع کرنے کے ہدف پرسخت اقدامات کاکہاہے یوٹیلٹی قیمتوںپربھی آئندہ بجٹ سے قبل اتفاق رائے پیداکیاجائے گاجسے آئی ایم ایف سے مطالبے کی بجائے بجٹ کے فیصلے کے طورپرپیش کیاجائے گا۔پاکستان نے معاہدے سے قبل سرکاری اداروںکودی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ شیخ رشیدکہتے ہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری ہے۔