پاکستان تحریک انصاف کے پاس بہت سے انمول ہیرے موجود ہیں ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ان میں سے کہ کچھ لوگ وزارت سنبھالنے کے بعد ناکام بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کئی ایسے افرد بھی ہیں جو بھرپور اخلاص کے ساتھ عوامی خدمت اور اداروں کی بہتری کیلئے جتے ہوئے ہیں ۔ ان کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کسی قسم کی تعریف یا ریوارڈ سے کوئی غرض نہیں ۔ دوسری جانب ایسے مثالیں بھی موجود ہیں جن کا غرور ایوان بالا یا ایوان زیریں کا حصہ بننے کے بعد کئی درجہ اوپر آجاتا ہے ۔ ان میں سے کئی ایسے ہوتے ہیں جنہیں پارٹی کی جانب سے اسمبلی میں رکنیت ’’عنایت‘‘ کی گئی ہے اور انہیں یا تو اس کا یقین نہیں آرہا ، یا پھر عزت راس نہیں آرہی ۔ ایوان کا حصہ بننے کے بعد ان کے رویوں میں یکسر تبدیلی آئی ہے اور وہ اپنے آپ کو کسی اور ہی دنیا کی مخلوق سمجھنے لگے ہیں۔
میری گذشتہ دنوں مخصوص نشست پر اسمبلی پہنچنے والی تحریک انصاف کی ایک ایم این اے سے بات ہو رہی تھی ۔ مجھے کسی دوست کی نمائندگی کرتے ہوئے موصوفہ کو ایک تقریب میں مدعو کرنا تھا ۔ اس خاتون ایم این اے نے جواب دیا کہ ’’میں اب پہلے والی فلاں نہیں رہی ، سینئر ہو گئی ہوں ، اب میں ایسے چھوٹے موٹے پروگراموں میں نہیں آتی ‘‘ ۔۔۔ جب ’’نشست‘‘ ملتے ہی یوں رویے اور مزاج بگڑنے لگیں توبلاشبہ ایسے لوگوں کی اپنی پارٹی میں بھی کوئی عزت نہیں رہتی ۔ میرے روز و شب چونکہ صحافت کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ سوشل بھی ہیں ۔ بحیثیت صحافی اور سماجی کارکن مجھے کئی تقاریب میں جانا پڑتا ہے ۔ بیشتر مواقعوں پر میں نے مشاہدہ کیا کہ مذکورہ خاتون ایم این اے جب اسمبلی کا حصہ نہیں تھیں ، تب یہ پروگرامات میں جا کر منتظمین سے خود کہہ کر سٹیج مانگا کرتی تھیں اور کئی جگہوں پر شکوہ بھی کرتی پائی گئیں کہ انہیں مدعو کیوں نہیں کیا جاتا؟ ۔ لیکن اب جبکہ لوگ خود انہیں بلاتے ہیں تو ’’سینئر‘‘ ہو جانے کی وجہ سے انہیں ’’وقت‘‘ ہی میسر نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان خاتون کا قصور نہیں ہے ۔ مسئلہ ہمارے اجتماعی مزاج کا ہے۔ ہمیں جب اپنے قد کاٹھ سے بڑھ کر کوئی عہدہ ملتا ہے تو ہم اپنا ماضی بھول جاتے ہیں اور خود کو دیگر سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں ۔ ایسا ’’بیوروکریٹ رویہ‘‘ ، خود بیوروکریسی کیلئے حوصلہ افزاء ہوتا ہے ۔ انہیں ’’پھلنے پھولنے‘‘ کی شہ ملتی ہے ۔ یہ امر ، ان عوامی نمائندوں کیلئے بھی مشکل کا باعث بنتا ہے جو کام کرنا اور اداروں کو سنوارنا چاہتے ہیں ۔
مجھے ایک وزیر بتا رہے تھے کہ جب سے انہوں نے عہدہ سنبھالا ہے ، بیوروکریسی کی وجہ سے وہ اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نہیں ادا کر پارہے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کئی مواقعوں پر بیوروکریسی کی طرف سے مسائل کے حل میں رکاوٹوں کے طریقے بتا کر انہیں حیرانی میں بھی ڈالا گیا ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بیوروکریسی بگڑی ہوئی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ نئے آنے والے بھی اسی رنگ میں ڈھل رہے ہیں ۔ اگرچہ ’’نئے پاکستان‘‘ کے قیام کے بعد بیوروکریسی کا رویہ درست کرنے پر ترجیحی توجہ دی گئی ہے ، لیکن نئے پاکستان کی اسمبلی کا حصہ بننے والے ممبران ، وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریوں کے رویے بھی ویسے ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے موجودہ وزراء میں کئی معروف نام جو الیکشن جیتنے سے قبل کی زندگی ، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ’’پرانے پاکستان‘‘ میں اکثر صحافیوں ، دانشوروں اور محلہ داروں کے پاس بیٹھا کرتے تھے ، لیکن جب سے وہ منسٹر بنے ہیں ، وہی صحافی ، دانشور ، دوست اور محلہ دار ملنا تو دور کی بات ، فون تک نہ سننے کی شکایت کرتے پائے جا رہے ہیں ۔ یعنی وہی بیوروکریسی رویے نئے پاکستان کے منتخب نمائندوں میں منتقل ہوتے جارہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس صورتحال میں سخت چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی بیوروکریسی سٹرکچر کی اصلاحات کا علم اٹھایا تھا ، لیکن بیوروکریسی نے کیا ٹھیک ہونا تھا ، ان کے اپنے وزراء بلکہ اسمبلی ممبران کے مزاج بھی بگڑتے جارہے ہیں ۔ موجودہ سسٹم میں محض چند ہی وزراء ، پارلیمانی سیکرٹریز اور اراکین اسمبلی ہیں جنہوں نے اس کیچڑ سے خود کو بچایا ہے اور صحیح معنوں میں حکومت کی نیک نامی اور عوامی خدمت پر خود کو مامور کئے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ چند ہی لوگ ہیں جو اب بھی خود کو عوام کا حصہ سمجھتے ہیں اور سسٹم اور اداروں کی بہتری کیلئے جُتے ہوئے ہیں ۔ یہی لوگ وزیر اعظم کا بازو کہلوانے کے لائق بھی ہیں۔
اس ضمن میں پنجاب اور پختونخواہ سے گنتی کے چند وزراء کے علاوہ مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین ممبران اسمبلی میں سے پنجاب سے سعدیہ سہیل رانا ، ڈاکٹر یاسمین راشد اور وفاق سے پارلیمانی سکیرٹری صحت ڈاکٹر نوشین حامد جیسے فرنٹ لائنرز پورے اخلاص کے ساتھ موجودہ حکومت کے تشخص کی حفاظت کررہے ہیں ۔ تاہم اس موڑ پر اگر منتخب نمائندوں کا موازنہ سلیکٹڈ نمائندوں سے کیا جائے تو ڈاکٹر نوشین حامد اور سعدیہ سہیل رانا کی کارکردگی سب سے بہتر محسوس ہوتی ہے ۔ مزید بھی کئی انمول ہیرے اگرچہ حکومت میں موجود ہیں ، مگر میں نے جیسے مذکورہ دونوں عوامی نمائندوں کو جانچا اور ان کی کارکردگی دیکھی ہے ، مجھے مزاج اور کام کے اعتبار سے یہ دوسروں سے مختلف اور نمایاں لگی ہیں ، جو میڈیا کے لالچ ، شہرت اور پروٹوکول کی تمنا کئے بغیر عوام کی خدمت کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر نوشین حامد اور سعدیہ سہیل رانا گذشتہ حکومت میں خصوصی نشست پر ایم پی اے تھیں جبکہ اس مرتبہ ایک ایم این اے اور دوسری ایم پی اے ہے ۔ اگر میں گذشتہ حکومت میں ان کی بطور اپوزیشن اراکین اسمبلی کارکردگی کا موازنہ کروں تو ریکارڈ بتاتا ہے کہ سعدیہ سہیل رانا اور ڈاکٹر نوشین حامد نے اسمبلی کے فلور پر سماجی اور عوامی ایشوز پر توجہ دلانے اور نظام کی اصلاح کے لئے سب سے زیادہ آواز بلند کرنے کا ریکارڈ اعزاز حاصل کیا ۔ اس امر سے ان کے عوامی مسائل بارے درد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔۔۔ حکومت بدلی تو سعدیہ سہیل رانا پنجاب اور ڈاکٹر نوشین حامد کو وفاق میں نئی ذمہ داریاں دے دی گئیں ۔ نئی حکومت کو بنے چھ ماہ ہونے کو ہیں ، اور ان چھ ماہ میں مذکورہ دونوں اراکین، وزراء سے زیادہ متحرک رہی ہیں ۔ سعدیہ سہیل رانا پنجاب حکومت کی مختلف کمیٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف شعبہ جات کی اصلاحات کیلئے نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ عوامی سطح پر بھی اپنا آپ منوا رہی ہیں ۔۔۔ جبکہ اسی مختصر عرصہ میں ڈاکٹر نوشین حامد نے بطور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ شعبہ کی بہتری کیلئے وہ اقدامات اٹھائے ہیں ، جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
سعدیہ سہیل راناکا زیادہ عرصہ بیرون ملک گزرا ہے ۔ مگر دل میں اپنے ملک کا درد تھا لہذا یہاں شفٹ ہو کر انہوں نے سوشل ورک کا آغاز کیا ۔ سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے انہوں نے اپنے تئیں بہت کام کیا اور باتوں سے زیادہ عمل پر توجہ مرکوز کی ۔۔۔ بعدازاں سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر انہی ذمہ داریوں کو مزید منظم انداز میں آگے بڑھایا ۔ خوش اخلاق سعدیہ سہیل نے سیاست میں سینئر ہو جانے کے باوجود شہرت کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر نوشین حامد کا بھی سیاسی بیک گراؤنڈ کافی مضبوط ہے لیکن انہیں بھی غرور چھو کر بھی نہیں گزرا ۔ انہوں نے طب کے شعبہ میں خود کو پسماندہ لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کیا ۔ دکھی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے وہ اپنے حلقہ احباب کے ساتھ ملکر دن رات عوامی خدمت میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہیں ۔ نوشین حامد کی شخصیت ’’نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو‘‘ کی عملی تصویر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے منسلک ہر فرد ان کی تحسین کرتا اور خوش اخلاقی کی گواہی دیتا ہے۔
پس ، اسمبلی ممبران اور وزراء ایوان میں اپنی پارٹی کا چہرہ ہوتے ہیں ۔ ان کا رویہ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ۔۔۔ بظاہر دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی سسٹم میں قابل لوگ نہیں آ پاتے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ الیکٹڈ سے زیادہ سلیکٹڈ لوگ حکومت میں زیادہ اچھا کام کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے قد سے بڑھ کر کارکردگی دکھاتے اور اپنا مقام بناتے ہیں بلکہ ’’رائٹ مین ، رائٹ جاب‘‘کے فارمولے کو بھی تقویت بخشتے ہیں ۔ سٹیٹس کو کے حامل عوامی نمائندے کبھی تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سعدیہ سہیل اور نوشین حامد جیسے مخلص افراد کو ہی حکومتی عہدے دئیے جانے چاہئیں تاکہ نہ صرف حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو بلکہ حکومتی ایجنڈا بھی صحیح معنوں میں نافذ العمل ہونے کے ساتھ ساتھ عام فرد کی بھی اراکین اسمبلی تک پہنچ ممکن ہو سکے۔