سعودی ولی عہد محمد بن سلمان آج دوروزہ دورہ پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ ان کے وفد میں بڑے کاروباری افراد سمیت سینکڑوں اہم شخصیات شامل ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اتنابڑا وفد پاکستان آرہا ہے۔ ان کا یہ دورہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس وقت شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کی آمد پر اربوں ڈالر کے معاہدے ہوں گے ۔ اس سرمایہ کاری میں سب سے بڑا منصوبہ گوادر میں آئل ریفائنری کی تعمیر کا ہوگا۔کہاجارہا تھا کہ یہ ریفائنری 10 سال کے عرصے میں تعمیر کی جائے گی تاہم اب وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود کا کہنا ہے کہ سعودی عرب گوادر میں ایشیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری جلد سے جلد تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ریفائنری کی تعمیر 4 سے 5 سال کے عرصے میں مکمل کر لی جائے۔ آئل ریفائنری کی تعمیر سے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات باقی دنیا کے مقابلے میں قدرے سستی ہو جائیں گی۔
دوسری جانب سعودی عرب نے پاکستان کو آبی بحران سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیے گئے 2 بڑے منصوبوں کی فنڈنگ بھی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران باقاعدہ یاداشت پر دستخط کئے جائیں گے۔ بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے سعودی ولی عہد کی آمد کو پاکستان کی معیشت کیلئے بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ برادر اسلامی ملک نے پاکستان میں پانی کی قلت کے پیش نظر ڈیموں کی تعمیر کیلئے بھاری فنڈنگ کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 30کروڑ ریال، شونتر منصوبہ کیلئے 24کروڑ 75لاکھ ریال، جامشورو پروجیکٹ کیلئے 15کروڑ 37لاکھ جبکہ جاگران ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے 13کروڑ 12لاکھ ریال فراہم کئے جائیں گے۔اسی طرح آئل ریفائنری، خیبر پی کے، پنجاب سیاحت کے ہوٹلز کی تعمیر اور حویلی بہادر شاہ، بھکی پاور پلانٹ میں بھی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
سعودی ولی عہد بن محمد بن سلمان کی آمد پر حکومت پاکستان کی جانب سے زبردست استقبال کی گئی ہیں اور اس دورہ کو تاریخی اور یادگار بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاہم سعودی حکام کی خواہش پر شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے تمامتر اخراجات برادر اسلامی ملک برداشت کرے گا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے سعودی ولی عہد اور وفد میں شامل کاروباری افراد کی سکیورٹی کیلئے چار سطح پر مشتمل سکیورٹی پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر آج ہفتہ کے روز اسلام آباد کے نور خان ایئربیس پر اتریں گے جہاں سے انہیں وزیر اعظم ہائوس لے جایا جائے گا۔سکیورٹی کے حوالہ سے پہلا حصار اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کا ہوگا جبکہ دوسرا حصار رینجرز ، تیسرا حصار فوج کے جوانوں اور چوتھا حصار ولی عہد محمد بن سلمان کی شاہی سیکیورٹی گارڈز کا ہوگا۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق سعودی ولی عہد کی سیکیورٹی کے لیے تین ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہوں گے۔
محمد بن سلمان وزیر اعظم ہائوس میں قیام کریں گے جبکہ ان کے وفد میں شامل اہم شخصیات کو پنجاب ہاس میں ٹھہرایا جائے گا۔ اس کے علاوہ وفد میں شامل دیگر افراد کو اسلام آباد میں واقع دونوں فائیو سٹار ہوٹلز میں ٹھہرایا جائے گا اور اس ضمن میں ان ہوٹلوں میں زیادہ تر کمرے بک کرلیے گئے ہیں۔پنجاب پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے پہلے ان کے زیر استعمال دس سے زائد بلٹ پروف گاڑیاں بھی اسلام آباد میں پہنچا دی گئی ہیں جبکہ ان کی سیکیورٹی پر تعینات ایک سو سے زائد گارڈز بھی پاکستان پہنچ چکے ہیں۔سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد پر ممکنہ طور پر وزیر اعظم کی طرف سے ان کی گاڑی خود چلانے کے بارے میں وزارت داخلہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا وزیر اعظم پر ہی منحصر ہوگا۔ سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ اس وقت عالمی میڈیا کی نظریں بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان پر جم گئی ہیں۔
خلیجی خبر رساں ادارے گلف نیوز کے مطابق سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت کو فائدہ ہوگا۔خلیج ٹائمز نے بھی سرمایہ کاری کوشہ سرخیوں میں جگہ دی۔ گلف نیوز نے مزید لکھا ہے کہ آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری سے پاکستانی معیشت میں نیا خون دوڑنے لگے گا۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اس لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثارو قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا’انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف دونوں ملکوں کو قریب کرنے کیلئے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے زبردست کوششیں کیں جس پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورسبھی مسلم حکمرانوں کو ان جیسا کردار ادا کرنے میں کوشاں دیکھنا چاہتے ہیں۔
سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ ہرمسئلہ پر کھل کر پاکستان کے موقف کی تائید و حمایت کی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔2005ء میں آزاد کشمیر و سرحد کے خوفناک زلزلہ ،2010ء اور اس کے بعد آنے والے سیلابوں کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا او ر روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سرزمین پر اترتے رہے ۔ چند برس قبل سوات میں جب دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کیا گیا تو کئی سکول تباہی سے دوچار ہو گئے۔
سعودی عرب نے یہاں 23ملین ڈالر کی خطیر رقم سے تباہ شدہ اسکول دوبارہ بحال کئے اور طلباء کو واپس ان تعلیمی اداروںمیں آکر تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بحال کئے گئے ان سکولوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اسے دنیا بھر میں بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی خصوصی ہدایات پر سعودی ترقیاتی فنڈ کی جانب سے یہ تمام اخراجات کئے گئے۔ اسی طرح شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں میں وقتا فوقتا سیلابی ریلوں کی وجہ سے کئی پل ٹوٹ گئے جنہیں سعودی عرب کی طرف سے بڑی مالیت خرچ کر کے تعمیر کروایا گیا ہے۔ برادر اسلامی ملک کا یہی وہ بے لوث تعاون ہے جس کی وجہ سے اسلام پسند اور محب وطن حلقوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سعودی عرب کے اسلامی اخوت پر مبنی کردارسے پاکستان کی نوجوان نسل کو آگا ہ کیا جائے اور اس کیلئے وہ اپنا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیزپاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوت ہے۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ سمیت پوری دنیا کا دبائو تھا کہ پاکستانی حکومت ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔اس مقصد کے تحت دھمکیاں بھی دی گئیں اور لالچ بھی دیے جاتے رہے۔ یہ انتہائی مشکل ترین صورتحال تھی مگر ان حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کی حکومت کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس طرح اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوںمیں سعودی عرب کابھی بہت بڑا کردار ہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔ یہ ساری رپورٹ سعودی اخبار المدینہ میں تفصیل سے شائع ہو چکی ہے۔
سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے تیل کے ذخائرکی دولت سے نواز رکھا ہے ۔اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کر کے سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل بہتر طور پر سمجھ سکیں اور انہیں حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار طے کرسکیں۔ تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر سعودی حکومت بے پناہ خرچ کرتی ہے۔ مسلم ملکوں کو درپیش فتنہ تکفیر اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بھی سعودی عرب پیش پیش ہے اور پاکستان و سعودی عرب مل کر اس فتنہ پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی زیر قیادت 41مسلم ملکی اتحاد کے قیام کے بعد خاص طور پر مسلمانوں کا دینی مرکز سعودی عرب مسلم امہ کی قیادت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس اتحاد کابہت بڑا مقصدایسے تکفیری گروہ جو مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگا کر مسلم معاشروں میں قتل و غارت گری پھیلارہے ہیں’ ان کی دہشت گردی ختم کرنا ہے اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمان ملکوں کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات درپیش ہیں اور دہشت گردی کا یہی و ہ فتنہ ہے جو پوری مسلم امہ کو اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب خاص طورپر اندرونی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
پاکستان کو چونکہ آپریشن ضرب عضب میں زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اس لئے سب مسلمان ملکوں کی جانب سے وطن عزیز پاکستان کی اس اتحاد میںشمولیت پر خوشی محسوس کی گئی ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے مابین گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں جو ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے ۔پاکستان اور سعودی عرب کی سیاسی و عسکری قیادت کے اہم فیصلوں سے جہاں دہشت گردی ختم کرنے کیلئے کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں وہیں تمام مسلمان ملکوں کے مابین اتحاد ویکجہتی کیلئے کی جانے والی کوششیں بھی اللہ کے فضل و کرم سے ثمر آور ثابت ہو رہی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کا انتہائی اہم دورہ کیا اور خادم الحر مین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ سعودی عرب پہنچنے پر وزیر اعظم عمران خان کا روایتی انداز سے ہٹ کر شاندار استقبال کیا گیا’ ہزاروں افراد ان کے استقبال کیلئے موجود تھے جو پاکستان سعودی عرب دوستی کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
ایسا استقبال ماضی میں بہت کم کسی حکمران کا دیکھنے میں آیا ہے۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سعودی ولی عہد کے دورہ کے حوالہ سے کہاہے کہ ان کے اس دورہ کے موقع پر کم از کم 8مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط متوقع ہیں ،مفاہمتی یادداشتوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوآرڈینیشن کونسل بنائی جائیگی جس کی سربراہی پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان اور سعودی عرب کی طرف سے کراون پرنس شہزادہ محمد بن سلمان خود کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سعودی عرب کے ساتھ نئے تعلقات بننے جارہے ہیں۔ پچھلی حکومت کے سعودی عرب سے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے تاہم وزیراعظم عمران خان کے دو یکے بعد دیگرے ہونے والے دوروں میں پاک سعودی تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آئی جس کا عملی مظاہرہ آپ کراؤن پرنس کے حالیہ دورہ میں دیکھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جب وزیراعظم عمران خان سعودی عرب تشریف لے گئے تو پہلی دفعہ ایک مدت کے بعد پاکستانی پرچم سعودی عرب کی سرزمین پر لہرا رہے تھے۔
Pak Saudi Relations
انہوں نے کہاکہ سعودی عرب نے ہماری دل کھول کر مدد کی تین ارب انہوں نے بیلنس آف پے منٹ کی مد میں جمع کروائے اور پھر ڈیفرڈ پے منٹ کی مد میں 9.6 ارب کی سپورٹ فراہم کی۔وزیر خارجہ نے کہاکہ سعودی عرب نے پہلے اپنی ٹیم روانہ کیں جنہوں نے ہوم ورک کیا یہاں انہوں نے رزاق داؤد صاحب سے ملاقات کی سرمایہ کاری بورڈ میں ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوںنے کہاکہ اور اس ہوم ورک کے نتیجے میں کم از کم 8 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط متوقع ہیں۔انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کا اتنا بڑا وفد پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا ہوگا۔ذوالفقار علی بھٹوکے بعد پہلی مرتبہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے بہتر ہوئے ہیں۔حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا ،حکومت نے سی پیک منصوبوںاور سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے بھرپور استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس سے آئندہ چند سالوں میں پاکستان کاابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہو گا۔