ہوا یوں کہ پشاور میں ہمارے پڑوسی ملک ایران کے قونصل جنرل نے صوبہ خیبر پختونخوا کے چھ معتبر کالم نویسوں کو کو ایرانی حکومت کی طرف سے ایران دیکھنے کی دعوت دی،جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا ۔ہم نے ایران میں موسم اور درجہ حرارت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سامانِ سفر باندھا، ایران کے ائیر لائن ماہان کے ذریعے ہم نے لاہور سے روانہ ہوا تھا ،طے یہ ہوا کہ پشاور سے لاہور تک کا سفر پاکستان ریلوے کے ذریعے کیا جائے تاکہ ریل گاڑیوں میں اصلاحات کا جائزہ بھی لیا جائے، سو طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمارا وفد(ضیائالحق سرحدی کے سربراہی میں ) پشاور سے بذریعہ ریل گاڑی لاہور کے لئے روانہ ہو ا۔ریل گاڑی کے ڈّبے نے ہچکولے کھاتے ہوئے، دائیں بائیں، آگے پیچھے ارضِ پاک کو سلامی دیتے ہوئے چھکا چک چھک چک کی آوازِ پیری نکالتے ہوئے ہمیں لاہور پہنچا ہی دیا۔لاہور سے ہم نے سہ پہر تین بجے ایران کے شہر مشہدکے لئے پرواز کی، مشہد شہر ایران کے صوبہ خراسان کا مرکزی شہر ہے جس کی آبادی بیس لاکھ سے زیادہ ہے،مشہد کو مشہدِ مقدس کے نام سے پکارہ جاتا ہے اس شہر میں شیعہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق آتھویں امام علی رضابن موسی رضا مدفون ہیں ان کی مزار کی موجودگی کے باعث شہرِ مشہد دنیا بھر کے باالعموم مسمانوں بالخصوص شیعہ مسلمانوں کی خاص توجہ کا محور و مرکز ہے۔
ایک ایرانی اخبار کے مطابق سالانہ ایرانی زائرین کی تعداد ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہو تی ہے جبکہ غیر ملکی زائرین کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہو تی ہے۔ تین گھنٹے کے بعد مشہد ایئر پورٹ پر اترے ،ہمارے استقبال کے لئے ایرانی حکومت کی طرف سے ایک پروٹوکول آفیسر اور ایک ترجمان ایستادہ تھے ۔علیک سلیک کے بعد انہوں نے ہمیں مشہد شہر کے ایک معروف ہوٹل پہنچا دیا ،جہاں ہر قسم کی سہولت موجود تھی ،ماسوائے پاکستانی کھانے کے’ چونکہ رات ہو چکی تھی لہذا آگلے دن سے مختلف مقامات پر جانے کا پروگرام مرتب کیا گیا تھا۔شب ِ استراحت بے خبری میں گزری ،صبح ہوئی ، پروٹو کول آفیسر اور ترجمان کی معیّت میں ہمیں سب سے پہلے امام رضا کی زیارت کرانے لے جایا گیا۔
جہاں سیکیوریٹی کے کافی انتظامات موجود تھے۔زیارت کرنے احاطہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے ہمیں احاطہ میں موجودآستان قدس رضوی لائبریری لے جایا گیا جو مشرقِ وسطیٰ کی بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے اس لائبریری میں چالیس لاکھ سے زائد کتب رکھی گئی ہیں جس میں ایک اعلیٰ قسم کا ریسرچ سنٹر بھی موجود ہے۔لائبریری کا با اخلاق سٹاف اور قرینہ حفظِ کتب قابلِ ستائش تھا۔
بعد ازیں ہمیں احاطہ میں موجود میوزم کی طرف لے جایا گیا جہاں سابقہ ادوار کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی تھی۔اس میوزم کے تین منزلیں ہیں ، ہر ایک منزل میںایک مخصوص مو ضوع پر تاریخ کے مختلف ادوار کا عکس موجود ہے۔تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ میوزیم قابلِ دید ہے۔پھر ہمیں متصل قران اکیڈمی لے جایا گیا جہاں نہایت قدیم قرانی نسخے مختلف رسم الخط میں موجود تھے جنہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔وہاں سے ہمیں متصّل امام علی رضا کے مزار مبارک کی طرف لے جایا گیا۔
امام رضا شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے لئے نہایت اہم اسلامی شخصیت ہیں وہ آٹھویں امام ہیں انہیں 818عیسوی میں المامون عباسی بادشاہ کے حکم پر شہید کرنے کے بعد یہاں دفن کر دیا گیا بعد ازاں شیعہ و سنی مسلمانوں نے ان کے مزار پر فاتحہ خانی کے لئے آنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ اس جگہ کا نام مشہد امام موسی الرضا مشہور ہو گیا اور دور دراز سے زائرین اپنی حاجت روائی اور دعاوں کی قبولیابی کے لئے اس مقدس مقا م کی طرف آنے لگے۔یہ ایران کی سب سے بڑی عبادت گاہ بھی ہے ،ہم نے دیکھا کہ وہاں بے شمار زائرین اپنی حاجت روائی کے لئے ہاتھ اٹھائے کانپتے لبوں کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں۔
یہ عبادت گاہ لائبریری، میوزیم، سیمینار، مسجد گوہر شاد اور جامعہ رضوی پر مشتمل ہے اور 598657 مربع میٹر پر محیط ہے اس کے ارد گرد بہت سے عمارات اور بازار موجود ہیں۔اس مقام مقدس کی زیارت کرتے کرتے ظہر کے نماز کا وقت ہو گیا ،ہم نے وہیں مسجد میں نماز پڑھی اور بعد ازاں اپنے مقام قیام یعنی ہوٹل کی طرف چل پڑے۔موسم ہمارا ساتھ دے رہا تھا اور ایرانی حکومت کی طرف سے مقّرر شدہ پروٹوکول آفیسر اور ترجمان بھی اپنے فرائض بہ احسنِ تقویم سر انجام دے رہے تھے اور ہم اپنی قسمت پر نازاں ایران کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں ہم نے پیٹ پوجا کرنا تھا۔