6 جنوری 2019ء کومتحدہ عرب امارات کے ولی عہد الشیخ محمد بن زید النہیان نے جذبہ خیر سگالی،باہمی تعلقات کو نئی جہت دینے کی غرض سے اورپاکستان عرب امارات دیرینہ ا ورپائیدار تعلقات کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے دورہ پاکستان کیا ،پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ان کا یہ دورہ پاکستان کے لیے بڑا معاون ثابت ہوگا،جن کے ثمرات آنے والے دنوں میں مزید عیاں ہونگے۔ متحدہ عرب امارات و سعودی عرب ہمارا اسلامی برادر ملک ہے اور ان کے کرتا دھرتاکی عزت و اکرام سر آنکھوں پر۔متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ایسے وقت میں مالی امداد دینے کی صورت میں معاشی استحکام بخشا، جب پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب اور بہت سے مسائل سے دوچار تھا اور اس کے پاس ،لیے گئے قرضوں کی انسٹالمنٹ کی واپسی کے لیے بھی معقول حد تک پیسے نہ تھے اور شدید ترین معاشی الجھنوں کا شکار تھا۔
ایسے میں قرضے کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا،ملک کو چلانے اور درپیش بحران سے نکالنے کے لیے ،کسی بھی طرف سے آفر کے لیے امید بھری نظروں سے دیکھا جارہا تھا کہ ملک کی ڈوبتی کشتی کو کہیں سے سہارا مل جائے۔اس موقع پرآئی ایم ایف سے بھی، ناچاہتے ہوئے بھی رجوع کرنا پڑااس گیت کے مصداق’’آنا ہی پڑا سجناظالم ہے دل کی لگی‘‘مگرآئی ایم ایف نے پاکستان کی نازک صورتحال میں قرضہ دینے کی صورت میں کڑی شرائط رکھ دیں،قرضہ بھی نہ دیا اور نہ ہی ملنے کی مناسب حد تک امید دلائی،دیا بھی کچھ نہیں اور مذاکرات کے جال میں پھنسا کر ،امید کی کرن آنکھوں میں سجوا کر، ڈالر کی اونچی اڑان کر ڈالی۔ایسے میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی باتیں کرنے والے عمران خان کے آئی ایم ایف جانے کو، اپوزیشن نے خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔
حکومت نے بھی کڑی شرائط نہ مانتے ہوئے آئی ایم ایف سے ابھی تک قرضہ کا حصول کا معاملہ زیر التوا رکھا ہے کہ عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بارآور ثابت ہوئے،پاکستان کو سعودی واماراتی امداد کی صورت میں وقتی سہارا مل گیا۔ جوکہ ان دونوں ممالک کی جانب سے پاکستان کے لیے برے حالات اور ڈوبتی معیشت میں ایک گراں قدر انعام اور ڈوبتے کو خدا کا سہارا مل گیا والی بات ہے ،جس پر حکومت وقت کے جہاں دن بڑھے،وہیں ملکی معیشت کی ڈوبتی سانسوں جوکہ سابقہ کرپٹ حکمران ٹولے کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر تھیں کوبھی سانسیں مل گئیں،جس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت رکھنے والے خفیہ ہاتھوں کا بھی کمال تھا،جنھوں نے خطے میں سی پیک کے حوالے سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو باور کرواتے ہوئے پاکستان کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے اور ہم اور وہ ایک دوسرے کے لیے کتنے لازم وملزوم ،کا سبق یاد دلاتے،اس امداد دینے کے کارخیر میں حصہ ڈالتے۔
پاکستان کی ڈوبتی معیشت کی وینٹی لیٹر پر لگی معاشی صورتحال کو سانسیں دینے کا فیصلہ کیا،یوں پاکستان اس بڑی تباہی سے دوچار ہوتے ہوتے رہ گیا،جس کا شکار ہوجانا تھااگر پاکستان کو یہ امداد نہ ملتی تو۔خیر خدا جو بھی کرتا ، اچھے کے لیے کرتا، پاکستان کو مشکل وقت میں سعودی واماراتی امداد کی صورت میں فرشتہ کی مدد اور خدا کا سہارامل گیا اورآئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر مبنی کڑے شکنجوں سے بھی وقتی طور پرچھٹکارا۔یہ سعودی واماراتی حکومت کی جانب سے بہت بڑی بات تھی،ایک مشکل وقت میں ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘بھی بہت ہوتا‘‘اور سراہے جانے کے قابل اور یہ کام سعودی واماراتی حکومت نے کردکھایا تھا اور ان منہ پھٹ ؍طعنہ گوافراد،جو عمران کو ناکام دیکھنے کے خواہشمند، کو منہ کی کھانے پر مجبور کردیا تھاجو کہہ رہے تھے کہ عمران کو کہیں سے بھی امداد کی بھیک نہیں ملی۔
پرکٹھن ،مشکل لمحات میں سعودی واماراتی حکومت کا پاکستان کے لیے امداد کی صورت میں خیال ،ان کی محبتوں اور نوازشوں کا منہ بولتاثبوت اور اس بات کا اعلان ہے کہ ان کے دل پاکستان کے لیے دھڑکتے ، وہ پاکستان کو توانااور ترقی یافتہ دیکھنے کے خواہشمند ، اس میں اپنے حصے کی اینٹ لگانا فخر جانتے ہیں۔سعودی وامارات کے ا س مخلصانہ طرز عمل اور محبتوں بھرے جذبات پر ان کو سلام۔ایک ایسے وقت میں جب نا امیدی اور مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے پاکستان پر چھائے ہوئے تھے اور یہودوانصاریٰ مشکلات میں جھکڑے تکلیف و کرب میں مبتلاء پاکستان کا تماشہ دیکھ رہے تھے کہ سعودی واماراتی چپکے سے دئیے امدادی پیکج نے ان تماش بینوں کی خوشیوں میں رنگ میں بھنگ ڈال دیااور پاکستان کو معاشی پابندیوں میں جھکڑنے کی غرض سے آئے ،کسی کام کے نہ،آئی ایم ایف وفد کو ناکام ہی پاکستان سے جانے پر مجبور کردیاجوکہ اس سوچ کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تھے کہ پاکستان والے ناز تو اٹھائے گے ہی ،چلو دورہ ہی کر آتے ہیں،ہمارا کیا جانا،دورہ جو کر رہے،ہے بھی کاروباری،پاکستان کو کچھ دے کران کی آزادیوں، سکھ چین سب تک کو توچھین لانا،وہ تو بھلا ہو،سعودی واماراتی حکومت کا کہ جنھوں نے بروقت ہماری مدد کرکے وقتی طور پر ہمیں اس خودکش ،اپنا آپ برباد کرنے والی صورتحال سے بچالیا۔
اسی برادر اسلامی ملک کے ولی عہد ا لشیخ محمدبن زیدالنہیان پاکستان آتے ہیں تو ان کوبھرپورعزت واکرام اورپروٹوکول سے نوازا جاتا ہے،ان کے اس بھرپور احساس کرنے پر،نم آنکھوں کے ساتھ مشکوروزیر اعظم ان کو عزت دیتے ہوئے ان کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کیا بیٹھ گئے،اپوزیشن کی جانب سے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور اسے عمران خان کی غیرذمہ درانہ حرکت سے تعبیر کیا،حالانکہ یہ عمران خان کی غیر ذمہ درانہ حرکت نہ تھی بلکہ ان کابڑا پن تھا،ایک مہمان کی عزت وتکریم تھی،جس میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی تھی اوریہ کہ ان سے اسلامی ،مذہبی ،ذاتی تعلقات کی نوعیت کی حد تک تھی اور اس سے بڑھ کر عزت کے لائق کون ہوتا ہے جو مشکلات میں کام آئے اور یہ کہ اس میں اماراتی ولی عہد پورے اترے تھے،ڈرائیور بنناتو کوئی بات نہیں،کچھ بھی نہیں،ان کی راہوں میں پھول بچھائے جانے کے قابل تھے۔
جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا یہ اعتراض ہے کہ اب ہر ایک کے آنے پر وزیراعظم کو ڈرائیونگ کرنا ہونگی تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے کم پروٹوکول دیا گیاہے تو ایسی بھی کوئی بات نہیں،محبتوں کے یہ جذبے ہر کسی کے لیے خاص نہیں ہوتے۔یقیناًزندہ دل ممالک کے زندہ دل حکمران اپنے معزز مسلمان مہمانوں کے لیے ایسے ہی دل فراش ،راہ فراش کیے عجزوانکساری کی تصویر بنے اللہ عزوجل کی تسبیحات بلند کرتے ، متحدہ عرب امارات ؍سعودی عرب کی جانب سے اچانک بیش بہاء تحفے ،مالی تعاون اوربھرپور سرمایہ کاری کی صورت میں ملنے والے انعامات پرشکریہ کے الفاظ ڈھونڈتے ہوئے کبھی میں ان کو ،کبھی میں خود کو دیکھتا ہوں، انہیں مہمان بھگوان سمان سمجھ کرجی آیاں نوں کہنے کے لیے عقیدت و محبت کے ساتھ تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ اب حسب روایت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد پر بھی انتہائی معزز مہمان کی گاڑی کو خود عمران خان نے ڈرائیوکرکے ان سے محبت و الفت کا اظہار کرتے ،ان کی عزت و تکریم کا ثبوت فراہم کیا ہے جو ایک قابل تحسین عمل ہے اورعجزو انکسار کا اعلی ٰنمونہ۔