اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، انور مجید اور اومنی گروپ کی نظر ثانی کی تمام درخواستیں مسترد کر دیں۔
سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے بیرون ملک رقم منتقل کیے جانے کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل لطیف کھوسہ نے متفرق درخواست دائر کی۔
درخواست میں عدالتی دائرہ اختیار کو بنیاد بنایا گیا جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نا ہونے پر بھی سوال اٹھائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس کے فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر اس پر بات ہوئی تھی اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار بھی رائے دے چکے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز بھی ازخود نوٹس اختیار کے تعین کے حق میں ہیں اس لیے تضاد کو دور کرنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
آصف زرداری کی جانب سے دائر درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔
دوران سماعت اومنی گروپ کے انور مجید اور عبد الغنی مجید کے وکیل شاہد حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے مؤکلان 15 اگست سے گرفتار ہیں، انور مجید دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے سب سے اچھے اسپتال میں داخل ہیں۔
شاہد حامد نے کہا کہ چیئرمین نیب کو اجازت دی جائے کہ کراچی میں ریفرنس دائر کر سکیں، اس معاملے میں ہر چیز کراچی سے متعلق ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ کے تمام دلائل قبل از وقت ہیں۔
وکیل شاہد حامد نے کہا کہ میرے مؤکلان سے متعلق حتمی چالان عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا۔
سندھ حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل بھی نظرثانی اپیل میں پیش ہوئے۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ نہیں سندھ حکومت کے بارے میں تو نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی نظر ثانی درخواست منظور نہ ہوئی تو آپ پر جرمانہ کریں گے، ایک صوبائی حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ 7 جنوری کے زبانی حکم نامے میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا نام ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے ہٹا دیں، تحریری حکم نامے میں نام صرف ای سی ایل سے ہٹایا گیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ زبانی اور تحریری حکم نامہ ایک ہی تھا، ای سی ایل سے نام ہٹانے کا کہا تھا تاکہ وزیراعلیٰ پر سفری پابندیاں نہ لگیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کے خلاف مواد ہو تو ای سی ایل پر ڈالیں، یہ آرڈر تھا۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ تفتیش کاروں کو رینجرز کی سیکیورٹی مہیا کرنے کا کہا گیا، حالانکہ سیکیورٹی مہیا کرنے کی درخواست سپریم کورٹ میں نہیں آئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ایف آئی اے نے خود کہا کہ ان کے تفتیش کاروں کو خطرہ ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تفتیش کار، گواہان سب نے کہا کہ سندھ میں ان کو خطرہ ہے۔
مراد علی شاہ کے وکیل مخدوم علی خان نے روسٹرم پر پیش ہو کر مؤقف پیش کیا کہ میرے مؤکل کو کبھی تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا، بغیر سنے ان کے بارے میں آبزرویشن آئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسی لیے ہم نے نیب کو تفتیش کے لیے کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے مراد علی شاہ کو نظرثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دیدی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے بلاول بھٹو کے وکیل خالد جاوید سے استفسار کیا کہ آپ اس مقدمے میں بطور اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ہیں۔
خالد جاوید نے کہا کہ میں کبھی پیش نہیں ہوا، میرے موکل کو بھی سنا نہیں گیا۔
انہوں نے کہا کہ زبانی حکم میں ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے نام ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بلاول کو تو ابھی کال اپ نوٹس بھی نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت مفروضوں پر کام نہیں کر سکتی، مستقبل کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے آصف زرداری، فریال تالپور اور اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید کی نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج جتنی بھی بحث ہوئی وہ سب خدشات پر ہوئی۔
ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں جب کہ تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں۔
ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں ‘ٹریڈ اکاؤنٹس’ کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔
اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔
منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہیں۔
اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور پیش ہو چکے ہیں۔