اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تو یہ اس کا احسان عظیم ہے۔ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ طرف سے کی گئی رحمت اپنی جان کی حفاظت کا برابر انتظام کرتارہے اور اسی طرح معاشرے کے سربرآوردہ شخصیات اور حکمرانوں پر بھی لازمی ہے کہ وہ اپنی عوام کوصحت کی سہولیات بہم پہنچائیں۔جیساکہ تاریخ شاہد ہے کے مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا تاکہ وہاں مختلف امراض سے دوچار لوگوں کا علاج و معالجہ کیا جاسکے۔مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے مختلف بیماریوں کے لیے ادویات و ٹیبلٹ (گولی)کی نشاندہی کی اور معاشرے میں ثقافتی ترقی کے ساتھ ہی امراض کے علاج کی تشخیص بھی کی۔نبی اکرمۖ نے علاج و معالجہ کو فرض قراردیا اور لازم قراردیا کہ مسلمانوں میں سے بیماری کے شکار اس سے استفادہ کریں۔جیسے آپۖ نے ارشاد فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیماری پیدا کی ہے تواس کو زائل کرنے کے لیے دوا بھی پیدا کردی۔،جس نے جان لیا اس نے جان لیا (یعنی فائدہ اٹھایا)جو جاہل رہاوہ جاہل رہا(یعنی ناواقف رہا)۔اسلام میں لازم کردیا گیا ہے مسلمانوں پر وہ علم طب کے شعبہ میں فحص و تمحیص کرکے بیماریوں کے علاج کو تلاش کرکے مریضوں کا درست علاج کریں۔
غزوہ احزاب میں حضرت رفیدہ کا الگ خیمہ قائم کیا گیا جس میں دوران جنگ زخمی ہونے والوں کی مرہم پٹی کا انتظام کیا جاتاتھا۔حضرت رفیدہ مسلمانوں کی پہلی نرس تھیں اور آپۖ نے آپ کی معیت میں کچھ نوجوان صحابی و کچھ خواتین صحابیات کو اس عظیم مقصد کے لیے مختص کیا اور فرمایا کہ اللہ کے بندو ہاتھ بٹائو ان معالجین کا۔مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں چاہے وہ حاکم ہوں یا محکوم کہ بیماری کا علاج کرنا اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے اور یہ بہترین عمل ہے جس کو فقہ اسلامی میں فرض کفایہ کا درجہ دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم حکام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر خاص رقم مختص کرتے تھے ہسپتالوں کی تعمیر اور اس میں علاج و معالجہ کے لیے ہرممکن سہولت فراہم کرنے کا انتظام کرتے تھے۔مسلمانوں نے ہسپتالوں کے لیے آبادی سے ہٹ کر جگہیں مختص کی جہاں پر گندگی و کوڑاکرکٹ کے اثرات فاسدہ نہ پہنچ سکیں ۔ پہلا طبی مرکز مسجد نبوی کے قریب قائم کیا گیا تھایہ ایسا منفرد مقام تھا جہاں پر سکون و طمانیت کا احساس ہر مریض کرتاتھا۔حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان نے جامع مسجد دمشق کے پاس ہسپتال قائم کیا۔
مسلم دورے حکومت میں ہسپتالوں کی تعمیر کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ولید بن عبدالملک (86ھ/705م)کے زمانہ میں اطلاع پہنچی کے جزام کا مرض صوبوں میں پھیلتا جارہاہے۔جزام کا یہ مرض ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتاہے ۔اس وجہ سے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے حکم جاری کیا ساری خلافت میں ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ اس متعدی بیماری پر قابوپایا جاسکے۔مسلمانوں نے علم طب کو منتقل کرنے کا بھی انتظام کیا ہے اور ہر ہسپتال کے پاس دارالطب(میڈیکل کالج)قائم کیا۔ان اداروں میں دنیا بھر کے طلباء آکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔آپ کی حیرت کے لیے کافی ہوگا کہ فرانس کے اندر پہلا ہسپتال مسلمانوں کیطبی مراکز و ہسپتالوں کے نوسوسال بعد قائم ہوا۔
مریضوں کے علاج و معالجہ کے لیے موجود ہسپتالوں کا یہ سلسلہ دوقسموں میں منقسم تھا۔ایک یہ کے مخیر حضرات اور حکومت کی جانب سے مختلف علاقوں میں مطب خانے قائم کیے گئے جہاں پر لوگ آکر اپنے مریضوں کا علاج کراتے تھے۔دوسرا شعبہ یہ تھا کہ بعض طبیب(ڈاکٹر)مختلف علاقوں گائوں اور شہروں میں سامان علاج و معالجہ ساتھ لے کر جاتے تھے اور مختلف امراض کے شکاروں کا علاج کرتے تھے۔اس سلسلہ کا آغاز سلطان محمود سلجوقی (511ھ/1117م)میں ہوا ۔مسلمانوں نے منصوری ہسپتال قاہرہ مصر میں (683ھ/1284م)۔صرف قرطبہ شہر میں 50ہسپتال قائم تھے۔ان ہسپتالوں میں مختلف امراض کے علاج کے مرکز تھے جن میں دل کا ہسپتال، امراض معدے کا ہسپتال،امراض ہڈیاں اور امراض آنکھوں کے ہسپتال موجود تھے۔اسی طرح وہاں پر علم طب کی درس و تدریس کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔
مسلمانوں کی جانب سے قائم ہسپتالوں میں مریضوں کو یہ سہولت بہم پہنچائی جاتی تھی کہ مریض جب علاج کے لیے ہہسپتال آتا تو اس کومفت نئے کپڑے پہنادئیے جاتے تھے تاکہ مریضوں میں جراثیم وغیرہ منتقل نہ ہوں۔اسی طرح ہر ایک مریض کو ایک مختص جگہ پر بستر فراہم کیا جاتاتھا۔مریض کے علاج و معالجہ کیے آلات بھی ہر ایک کے لیے الگ مختص کردئیے جاتے تھے۔جبکہ پریشان کن بات یہ ہے کہ فرانس کے شہر باریس میں ایک ایک بستر پانچ مریضوں کے لیے مختص کیا جاتاتھا۔ مسلمانوں نے اس شعبہ میں اس قدر بے پناہ مہارت حاصل کرلی تھی اور علم طب کے اصول و طریقہ علاج کو روایت دیا۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ صلیبی جنگوں کے درمیان ایک عیسائی فوجی کے پائوں پرسوجھا (ورم و سوزش)ہوئی تو اس کو شدید تکلیف ہورہی تھی انہوں نے مسلمانوں سے مدد طلب کی تو ایک مسلمان طبیب نے آٹے کو ایک خاص ترکیب سے اس کی سوجھن والی جگہ پر لگایا تو وہ صحت مند ہوگیا۔ مگر جب عیسائی ڈاکٹر آیا تو اس نے کہا کہ نہیں اس کا علاج نہیں ہوا یہ ایک وائرس ہے اور ضروری ہے کہ اس کا یہ حصہ کاٹ دیا جائے ورنہ دوسری جگہ منتقل ہوجائے گا یہ مرض۔ چنانچہ لوگوں نے مریض کو زبردستی پکڑا اور اس نے اس کے پائوں کا وہ حصہ ہی کاٹ دیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پائوں کٹنے کی وجہ سے زخم کی جگہ سے خون نکلنے لگا اور بلآخر وہ درد کی شدت اور خون کے بہہ جانے کی وجہ سے مرگیا۔
جب مسلمان علم طب کے میدان میں ایجادات و تخلیقات کررہے تھے اسوقت مغرب علاج و معالجہ سے ناواقف و ناآشناتھے۔مسلمان چونکہ علاج و معالجہ کرنا اور ہسپتالوں کا قیام عمل میں لانا نیک کام تصور کرتے تھے تو اس مقصد کے لیے گرانقدر مال ودولت کو انہوں نے خرچ کیاتاکہ علاج و معالجہ کے ساتھ مختلف بیماریوں کے مستقل ہسپتال قائم ہوسکیں۔یہاں تک کے نفسیاتی بیماریوں کے تدارک کے لیے بھی الگ ہہسپتال قائم کیے گئے تھے۔ جس قدر ہم اسلام کو سمجھتے ہیں ہم پر ضروری ہے کہ بھلائی کے کام کرتے رہیں۔جبکہ اب صورت حال مختلف ہوچکی ہے کہ مسلمان علم طب سے کوسوں دور ہوچکے ہیں اور اب مسلمان خود علاج و معالجہ کے لیے مغرب کے ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔