اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدس مقامات پر بے حرمتی اور مسلمانوں پر پرتشددکارروائیوں کا سلسلہ ابھی رکانہیں ہے ،اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کو اپنا دارلحکومت بنانے کا خواب آدھی صدی سے بھی زیادہ پرانا ہے، 1980 میں انہوںنے یروشلم (بیت المقدس) کو اپنا دارلحکومت بنانے کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جس کی مخالفت جہاں عرب واسلامی ممالک کی جانب سے کی گئی وہاں برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک نے بھی اسرائیل کے اس عمل کو تنقیدکی نگاہ سے دیکھامگر اس قرارداد کے تقریباً 71 سالوں کے بعد اچانک امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو پہلی نیچ حرکت کی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرکے ایک نئے تنازعے کا آغازکردیا تھا،ڈونلڈٹرمپ نے اپنی ایمبیسی کو بھی وہاں منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سب یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے کیا کیونکہ ٹرمپ یہ بات اچھی طرح سے جانتاتھا کہ امریکا میں تمام بڑے اداروں پر یہودی افسران بیٹھے ہیں ،ڈونلڈٹرمپ کی اس حرکت پر صرف مسلم ممالک سے ہی نہیں بلکہ خود امریکا کے اندر سے بھی مزاحمتی تحریکیوں کا آغاز شروع ہوگیاتھایہ ایک ایسا سخت رد عمل تھا جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ دنیا بیت المقدس کو کس نظر سے دیکھتی ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ایک قدیم ترین اور کسی بھی لحاظ سے اسرائیل کے زیراثر نہ رہنے والے شہر کو کس طرح سے اسرائیل کا دارلخلافہ بنایا جاسکتاہے دنیا بھر میں اس عمل کو سراسر قبضہ تصور کیا گیاجس کی ٹھیکیداری کا ذمہ امریکا نے لیکر تاریخ میں پہلی باراس بات کو جلادی کی امریکا مسلم ممالک کے لیے ایک ایسا ملک ہے جس پرکسی بھی لحاظ سے اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل قیام پاکستان کے نو مہینے کے بعد دنیا کے نقشے پر ظاہرہواجسے آج تک پاکستان نے تسلیم نہیں کیاہے،او آئی سی کی ایک میٹنگ میں ترکی کے صدر طیب رجب ارگان نے اسرائیل کو ایک دہشت گرد ملک قراردیاجو اسرائیل سمیت پوری دنیا کے لیے ایک بڑی خبر تھی، کیونکہ بیت المقدس کاشہر صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ یہودیوں اورعیسائیوں کے لیے بھی ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتاہے یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ یہودی مذہب کی ابتداہی اس جگہ سے ہوئی ہے وہ اسے اپنا پہلا قبلہ تصور کرتے ہیں،جبکہ مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ کعبہ شریف کے قبلہ مقرر ہونے سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ اسی شہر میں تھااور ہمارے پیارے رسولۖ بھی معراج کی رات اسی جگہ پر تشریف لائے تھے اور تمام انبیاء کی امامت کی اور پھریہی سے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور واپسی پرمسلمانوں کے لیے نمازفرض ہونے کا تحفہ لیکر آئے مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس مسلمانوں کے لیے مکہ مکرمہ کی مسجد احرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے مقدس مقام سمجھاجاتاہے اور یہ تصور اور حقیقت پوری دنیا کے مسلمانوں کوایک ساتھ جوڑے ہوئے ہے مگر تمام مخالفتوں اور ایک ایٹمی قوت ہونے کے باوجود پاکستان نے کبھی اسرائیل کو نقصان پہچانے کی بات نہیں کی مگر اس کے ساتھ ساتھ کبھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی بات بھی نہیں کی۔
دونوں ہی ممالک ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کیئے ہوئے ہیں اوریہ بھی درست ہے کہ اسرائیل نے کئی بار اور بھارت نے بھی کئی بار آپس میں مل کر پاکستان کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی پلاننگ کی کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ہی ممالک مسلمانوں کے بدترین دشمن تصور کیے جاتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر بھی اسرائیل کے سفر پرپابندی کا سامنا رہاہے ،تحریک انصاف کی حکومت میںپہلے یہ ایک افواہ پھیلائی گئی کہ پاکستان میں اسرائیلی طیاروں کی آمد ہوئی اور پھر کہاگیا کہ اسرائیلی کوہ کاف کی پریوں کی طرح آئے بھی اور چلے بھی گئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس قسم کی باتوں سے ملک بھر میں ایک طوفان برپا ہوگیاتھاجبکہ گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ کی جا نب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ایک بیان پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک شور بھی بلند ہواتھا جس کی وضاحت یا تردید بھی کردی گئی ہے جو کہ حکومت کی جانب سے ایک اچھااور مثبت عمل ہے ،کیونکہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے خود یہ اپنے بیان میں کہاکہ اسرائیلی طیاروں کی پاکستان آمد جھوٹ اور من گھڑت ہے اور اس خبر میں کسی بھی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے۔
جنرل ضیاالحق نے ایک دفعہ اسرائیل کونظریاتی ملک کہہ کر پکارا کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے اگر اسرائیل سے یہودیت کو نکال دیاجائے اوراسے سیکولر بنادیاجائے تویہ ریاست تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی اور اسی طرح اگر پاکستانی ریاست میں سے اسلام کو نکال دیاجائے تو وہ بھی بہت جلدختم ہوجائے گی ،اور پاکستان میں سے اسلام نکالنے کی سازشوں کا آغاز تقریباً ایک طویل عرصے سے جاری ہے کہیں ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ اسرائیل کے ایک اہم عہدیدار نے کہاتھا کہ ہم مسلمانوں کا مدینہ جانا مشکل بنادیں گے اور اسرائیل کا ویزہ آسان کردیں گے۔
میری نظرمیں یہودی ممالک کی جانب سے جس انداز میں مسلمانوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زریعے بے حیائی کا زہرپھیلاجارہاہے یہ عمل بھی ان ہی کوششوں کا حصہ ہے جبکہ اس سلسلے میں اسرائیل کی جانب سے بے پناہ کوششیں کی گئی کی کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو استوارکیاجائے اس سلسلے میں ایک پہلی کوشش کا زکر آتاہے ہے کہ سنہ 1952میں امریکی سفارتکاروں نے پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراللہ خان سے اسرائیل کے سفیرعباطین کے درمیان ملاقات کروائی تھی جو کارگر نہ ہوسکی ،اس کے علاوہ جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی اس قسم کے معاملات کی ہوااڑی جبکہ 1990 کی دہائی میں اوسلومعاہدہ کے بعد اسرائیل کے حق میں پاکستان کا رویہ نرم بتایاگیاجس میں ایک سے زیادہ بارپاکستان کے نمائندوں اور اسرائیلی وفود کے درمیان ملاقاتوں کا کوئی سلسلہ بتایا جاتاہے ،جو کسی نتیجے پر پہنچتاتو آج تاریخ کا حصہ بھی ہوتا۔
جبکہ اسرائیل نے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات کی کوششوں کو جاری رکھا جس میں اسے کہیں کہیں کامیابیاں بھی ملی ہیں ایک اسلامی ملک کے متعلق بتایا جاتاہے جس کا نام چاڈ ہے یہ ایک مسلمان اکثریت والاملک ہے جس کی سرحدیں لیبیااور سوڈان سے جاملتی ہیںجبکہ ایک عرب سلطنت عمان کی جانب سے بھی ہتھیار ڈالنے کازکر ہوا لیکن ایک بات طے ہے جس کازکر کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا کہ عربو ں کے لیے تباہی ہے ۔ اس حدیث کے بعد ممکن ہے کہ تمام ہی عرب ممالک یہودیوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور پوری دنیاہی اسرائیلیوں سے جاملے مگر پاکستان کو کبھی بھی اپنے دین اور اسلام کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے بھلے ہی ہمارے اس ملک میں مکہ اور مدینہ نہیں ہے مگر جس اسلامی ریاست کا تصور لیکر ہم نے اس ملک کی بنیادوں کو رکھا ہے وہ کسی بھی صورت میں نہیں ہلنی چاہیے ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی اورکسی بھی دور میں اگر اسرائیل کے معاملے میں پاکستان کے حکمرانوں کا رویہ بدلہ تو یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اس عمل کواسلام کے ساتھ دشمنی کے مترادف سمجھا جائے گاجبکہ خدانخواستہ اگر ایسا ہو بھی تو پھر اس بات پر بھی یقین کرلینا ہوگا کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے پر بھی اپنا موقف بدل سکتاہے مگر ہمیں امید ہے کہ پاکستان کے پہلے اور موجودہ حکمرانوں میں کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہو مگر جہاں کہیں پاکستان اور اسلام کی سا لمیت کی بات ہوگی اور جہاں کہیں عالم اسلام کے مقدس مقامات اور دین کی حفاظت کی بات ہوگی تو تمام سیاسی وغیر سیاسی جماعتیں لاکھ عداوتوں کے باوجود ایک پلیٹ فارم پراکھٹے ہونگے۔