برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں یوں تو مسلمانوں کی آمد صحابہ کرام کے زمانہ میں ہی ہوگئی تھی کہ سیدنا عمربن خطاب ، سیدنا عثمان غنی اور امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں مسلمان تاجروں اور بعدازاں مسلم فاتحین کے ذریعے اسلام کا پیغام دیبل، کراچی ،کلکتہ اور مکران کے مضافات میں پہنچا۔تاہم باضابطہ طورپر جب اس خطہ میں اموی خلافت کے ایام میں راجہ داہر نے مسلمانوں کے قافلہ جو سمندرمیں سفر کررہاتھا پر شب خون ہی نہ مارا بلکہ اس نے مسلمانوں کے قافلے کے مردوں کو تہہ تیغ کرنے کے ساتھ خواتین کو قید کرلیااور ان کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا تو اس وقت کے بادشاہ ولید بن عبدالملک کو مخاطب کرکے مظلوم خاتون نے شکوہ کیا کہ مسلمانوں کے دور خلافت میں مسلم خواتین کی عزت و ناموس غیر محفوظ ہے۔تو ولید نے اس وقت کے عراق اور خراسان کے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ وہ راجہ داہر کی جبروتیت کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں ۔محمد بن قاسم جو کہ اس وقت صرف 17سال کی عمر کے نوخیز جوان تھے کو حجاج بن یوسف نے ایک لشکر کی قیادت سونپ کر روانہ کیا کہ وہ مسلم قافلہ پر ہوئے ظلم کا ازالہ کرے۔
مغلوں کا دور: محمد بن قاسم نے کراچی میں قدم رکھتے ساتھ ہی راجہ داہر کو مسلمانوں کے قافلے کو آزاد کرنے کا کہا مگر راجہ داہر کی مغروریت اس کے آڑے آئی اور اس نے انکار کیا تو محمد بن قاسم نے حملہ کردیا جس میں راجہ داہر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور یوں اسلام کا باضابطہ پیغام امن و سلامتی اور مظلوموں کی دادرسی کرنے کا آفاقی و عالمی پیغام سندھ میں پہنچا اور محمد بن قاسم اسلام کی اشاعت کا فریضہ اداکرتے ہوئے کراچی ،سندھ ،ملتان ،گجرات اور کشمیر تک کے علاقوں پر پہریرا اسلام کو بلند کیا۔محمد بن قاسم کے بعدسلطان محمود غزنوی نے افغانستان سے آکر ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی۔محمود غزنوی کے بعد یکے بعد دیگرے مختلف بادشاہ محمد تغلق، قطب الدین ایبک، محمد غوری ،سلطان لودھی ،ابراہیم لودھی،بابر سمیت کئی حکمران آئے اور انہوں نے برصغیر پر حکمرانی کی ۔ ان حکمرانوں نے اپنے تئیں کوشش کی کہ وہ اس خطہ کو مسلمانوں کی عظیم ریاست کیے طورپر مضبوط بنائیں اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے تاہم ایسے میں ایک ایسے خانوادے کا ظہور عمل میں آیا جن کو بادشاہت کی مسند اگرچہ مختصر وقت کے لیے میسر آئی گر اس خاندان کیے چشم و چراغ نے برصغیر پر طویل ترین حکومت کرنے والے مدبر ترین حکمرانوں کی خدمات کو بھی ماند کردیا ۔
فرید خان: سلطان بہلول نے اپنے دور حکومت میں افغانستان کے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ ہندوستان میں آکر آباد ہوں تو میں ان کو جائدادیں اور سہولیات و مناصب عطاکروں گا۔ اس میں اس کا خاص مقصد یہ پنہاں تھا کہ وہ افغانیوں کو جائدادیں دیکر اپنی حربی قوت کو بہتر کرلے گا۔ اس پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابراہیم خان سور بھی ہندوستان میں آکر آباد ہوا۔ ابراہیم خان اور اس کے بعد اس کے بیٹے کو سلطانبہلول کی جانب سے شہس رام کا پرگنہ عطا ہوا۔سلطان بہلول کے بعد سکندر لودھی حاکم ہوا۔ابراہیم خان کی وفات ہوئی تو جونپور کے حاکم جمال خان نے حسن خان کو بلاکر اس کے باپ کی جاگیر کے ساتھ کچھ اور قطع اراضی عطاکی۔ حسن خان کے ہاں فرید خان کی پیدائش 1486ء میں ہوئی ۔فرید خان کے والد حسن خان اپنی(کنیز) بیوی کی محبت کے اسیرہونے کی وجہ سے فریدخان اور اس کے بھائی نظام خان کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا کہ اس کو فرید خان کی سوتیلی ماں فرید کے خلاف اکساتی رہتی تھیس ۔
گھر سے فرار: فرید خان کی سوتیلی ماں یہ جانتی تھی کہ فرید خان ایک باصلاحیت وہوشیار نوجوان ہے اور حسن خان کا بڑا بیٹا ہے اس وجہ سے اس کی جائداد کا وارث و امین بھی یہی ہوگا۔ اس بناپر وہ حسن خان کو کوستی رہیتی تھی اور فرید خان کے خلاف سازشوں کے جال بنتی رہتی تھی۔گھر کے حالات ناموافق ہونے کی وجہ سے فریدخان باپ سے ناراض ہوکر جونپور چلا گیا ۔ایسے میں حسن خان کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں فریدخان جمال خان کو ساری روداد نہ کہہ سنائے اور وہ مجھ پر غاضب ہو۔لہذا اس نے خود ہی بیٹے کی ناراضگی کے احوال لکھ بھیجے اور کہا کہ فریدخان کو کو سمجھائیں اگر وہ گھر واپس لوٹنے پر رضامند نہ ہوتو اس کی تعلیم کا اپنی زیرنگرانی انتظام کرلیں۔ فرید خان کو گھر کا مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے وہ جونپور میں جاکرتعلیم حاصل کرنے لگاجہاں پر اس نے عربی و فارسی اور ہندی میں درک حاصل کی اور علوم ظاہری کی ساتھ علوم باطنی پر بھی توجہ دی اور اس کی خاصیت یہ تھی کہ وہ علماء و مشائخ کا ناصرف احترام کرتاتھا بلکہ ان سے برابر استفادہ و مشورے بھی کرتا تھا۔
حکومت پر براجمان: حسن خان امور جائداد انجام دینے کے سلسلہ میں مشاورت کے لیے جب جمال خان کے پاس آیا تو اس کو جمال خان اور اس کے دوستوں نے سمجھایا کہ تمہارے بعد تمہارا بڑا بیٹا اصل وارث ہے اور اس کے ساتھ اس قدر دوری بہتر نہیں ہے لہذا صلح صفائی کرکے اپنے ہوشیار و باصلاحیت بیٹے کو رام کرلو۔ایسے ہی فریدخان کے دوستوں نے اس کو بھی سمجھایا کہ اپنے باپ کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرو۔جمال خان اور فریدخان کے دوستوں کی جانب سے اس نصیحت کا اثر یہ ہوا کہ باپ بیٹے میں صلح ہوگئی اور حسن خان نے فرید کو دوپرگنے عنایت کیے کہ ان کے امور کی نگہداشت کرے۔ فرید خان نے باپ سے التجا کی کہ وہ اپنے پرگنوں میں کسی کی بھی دخل اندازی برداشت نہیں کرے گا چنانچہ فریدخان کو باپ کی جانب سے سلطان سکندری لودھی کے دورحکومت میں سہسرام اور خواص پور کے پرگنوں میںمطلق اختیار مل گیا تو اس نے وہاں عدل و انصاف کا دور نافذ کیا اور اس نے عاملوں ،مقدموںا ور پٹواریوں کے مظالم سے کسانوں اور رعایا کو عافیت و سلامتی فراہم کی۔دونوں پرگنوں میں چوربازاری و لوٹ مار اور ظلم و جبر کے جتنے بھی سلسلے تھے سب کا خاتمہ کرکے کسانوں اور لوگوں کے دلوں میں فرید خان نے اپنے لیے امتیازی مقام پیدا کرلیا اور ان دونوں پرگنوں میں زندگی کو پرامن و خوشگوار بنالیا۔تاہم سوتیلی والدہ اور سوتیلے بھائی کی سازشوں کے سامنے فرید خان کے والد نے سرتسلیم خم کیا بغیر الزامات کی تحقیق کیے بیٹے سے تعلقات کشیدہ کرلیے۔جس کے نتیجے میں دانشمندی اور خوداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فریدخان پرگنوں کے انتظام چلانے سے مستعفی ہوگیا۔
سہرسرام سے آگرہ کا سفر: فرید خان سہرسرام اور خواص پور کی امارت کو چھوڑ کر کان پور پہنچا جہاں پر اس کے رشتہ داروں نے خوب خاطر مدارت کی اور وہ اپنے عزیز کے کہنے پر اسماعیل خان کے ہمراہ آگرہ پہنچا ۔آگرہ سلطان سکندر لودھی کے زمانہ میں حکومت کا مرکز مقررہوا۔فرید خان کے آگرہ آنے کے بعد سلطان ابراہیم لودھی بادشاہ بنا ۔فرید خان نے ابراہیم لودھی کے مشیر خاص امیر دولت خان کی ملازمت اختیار کی ۔امیر دولت خان فرید کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوش ہوا اور اسی اثناء میں فرید خان کا باپ فوت ہوگیا تو امیر دولت خان کی سفارش پر ابراہیم لودھی نے باپ کی جاگیر فرید خان کے سپرد کردی۔فرید خان سلطان ابراہیم سے جاگیر لے کر 1520ء میں سہسرام پہنچا اور اس کا سوتیلا بھائی سلیمان چوند کے حاکم محمد خان کے پاس چلا گیا جو فرید خان کا دشمن و حریف تھا۔اگرچہ فرید خان کو بادشاہ کی جانب سے جاگیر مل چکی تھی مگر اس وقت ریاست کے حالات مخدوش ہوچکے تھے چہار جانب سے شورشیں بپا تھیں اور ناصر خان لوہانی و دریاخانی لوہانی جو اودھ پور سے تھے انہوں نے پورے علاقہ بہار کو اپنے قبضہ میں لے لیا تو فرید خان نے عافیت جانی کہ وہ ابراہیم لودھی جو بے قوت ہوچکا تھا کو چھوڑ کر دریاخان کے بیٹے بہارخان کی پناہ میں چلا جائے۔اسی دوران 1522ء میں ظہیر الدین بابر نے حملہ کرکے ابراہیم لودھی کو قتل کردیا اور وہ ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔
شیرخان: فرید خان بچپن سے ہی بہادر و جری اور وفادار انسان تھا اس کا نتیجہ ہے کہ اس نے بہار میں بہارخان کا ہرمقام پر ساتھ دیا اور یہاں تک کے بہار خان نے خود اپنی بادشاہت کا اعلان کرکے بہار میں اپنی حکومت قائم کرلی اور اپنے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم دینے کے ساتھ اپنی ریاست کا سکہ بھی الگ جاری کیا۔ایک بار فرید خان بہار خان کے ساتھ سفر پر تھا کہ راستے میں شیر بہار خان پر حملہ آور ہوا تو فرید خان درمیان میں لپکا اور اس نے شیر کو آگے کے دونوں پائوں سے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور اس کی گردن کو اپنی تلوار سے جدا کرکے بہارخان کی خدمت میں پیش کیا۔بہار خان فریدخان کی اس قدر جرأ ت و بہادری کو دیکھ کر انگشت بدندان ہوگیا اور اس موقع پر اس نے فرید خان کو شیر خان کا خطاب دیا۔بہار خان نے اس کو اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کردیا جہاں اس نے جلال خان کی تربیت و خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور اس اثنا میں بہار خان سے اجازت لے کر اپنی آبائی جاگیر سہسرام چلا گیا اور وہاں پہنچنے کے بعد اس کو سلطان محمد بہار نے مغل فوج کے حملوں کی وجہ سے واپس آنے کا کہا مگر وہ نہ لوٹا تو بہار خان کے دل میں کدورت پیدا ہوئی۔
مغلوں کی فوج میں: شیرخان کے حریف محمد خان سور کی جانب سے بہار خان کو برانگیختہ کیا گیا کہ وہ شیرخان سے جاگیر واپس لے کر اس کے سوتیلے بھائی سلیمان خان کے حوالے کردے۔ بہار خان نے جاگیر تو نہ لی مگر محمد خان سور کو کہا کہ وہ شیر خان اور سلیمان خان کے مابین صلح کرائیں۔شیرخان اس بات سے دلبرداشتہ ہوااور سخت کلمات پر مشتمل مکتوب بہار خان کو لکھ بھیجا۔ چھوٹے بھائی کے مشورے پر شیرخان مغلوں کے حاکم اعلیٰ جنید برلاس کی پناہ میں چلا گیا۔1527ء میں کنوا کی جنگ کے بعد جنید برلاس نے آگرہ کا قصد کیا تو اپنے ساتھ شیر خان کو بھی ہمراہ کرلیا۔ آگرہ پہنچ کر اپنے بھائی اور ظہیر الدین بابر کے سرکردہ سے کہہ کر فرید خان کو بابر کی فوج میں ملازمت دلوادی۔شیر
بابر سے تعلق و اختلاف: خان بابر کی فوج میں سواسال تک موجود رہا مشرقی صوبوں کی لڑائی میں فتح حاصل کرنے کے بعد بابر نے شیرخان کو بطور انعام اس کی جاگیر دوبارہ سونپ دی۔شیر خان کو اپنے پرگنوں (اضلاع )کے ساتھ چوند اوردیگر سرکاری پرگنے بھی مل گئے تو اس نے افغانیوں کو بھاری معاوضوں کے عوض اپنے ساتھ شامل کرلیا اور اس نے اپنے پرگنوں میں اس قدر اصلاحات نافذ کیں کہ لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے ۔ایسے میں فرید خان نے مغل فوج کی کمزوریوں اور بدانتظامیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو کہنے لگا کہ اگر مجھے مخلص افغان دوست میسر آجائیں تو میں مغلوں کو ضرورملک بدر کرونگا۔ باوجود سمجھائے جانے کے وہ اس طرح عزم کا اعادہ برسرعام کرتارہتاتھا۔ شیر خان نے مستقبل کی منصبوبہ بندی کرتے ہوئے اپنے حریف محمد خان سور کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرلیا اور اختلافات کو ختم کردیا۔بابر کو شیرخان کی باتیں پہنچ رہیں تھیں تو اس نے دعوت طعام کا اہتمام کیا تو شیر خان نے دسترخوان پر خنجر سے گوشت کاٹ کر چمچ کی بجائے خنجر سے ہی بابر کی موجودگی میں کھانا کھایا تو بابر اس کے عزائم خطرناک کو بھانپ گیا اور اس کی کی نگرانی کا حکم دیا اور کہا بہتر یہ ہوگا کہ اسے گرفتار کرلومگر قریبی درباری کے کہنے پر اسے گرفتار تو نہ کرایا مگر نظر رکھنے کا کہہ دیا۔
حکومت بہار و بنگال: شیر خان بابرکے بدلتے تیور دیکھ کر اپنے افغانی دوستوں کے پاس آیا اور کہا کہ بابر کی نیت خراب ہے لہذا میں جارہاہوں۔شیرخان رات کی تاریکی میں فرارہوکر سلطان محمد بہار خان کے پاس پہنچ گیا جہاں اس کی خوب آہ وبھگت ہوئی اور سلطان نے اس کو بیٹے کا اتالیق مقرر کیا۔بہار خان فوت ہوا تو اس کا کم سن بیٹا جلال خان حکم بنا جس کا استاد شیر خان تھا ۔گویا عملاً امور سلطنت شیر خان کے ہاتھ میں آگئے ۔شیر خان نے چلاکی کے ساتھ لوہانیوں اور جلال خان کے مابین پھوٹ ڈال دی چونکہ شیر خان قرب جوار کی جنگوں میں فتح حاصل کرنے کے بعد لوہانیوں کو ان کے حصے سے محروم کررہاتھا۔جلال خان کو جان کے لالے پڑے تو اس نے شیر خان کو کہا کہ میں بنگال کی سرحد پر لڑنے خود جاتاہوں آپ یہاں امور رعایا کی دیکھ بھال کرو۔شیرخان سہسرام پہنچا ہی تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ جلال خان بھاگ بنگال کے حاکم کی پناہ میں چلا گیا ۔اس خبرکو مستقبل کے عزائم کی تکمیل کا پیش خیمہ سمجھ کر شیرخان باغ باغ ہوگیا۔بہار کا حاکم بنتے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ بنگال پر قبضہ کرنے کے ساتھ مغلوں کو ہندوستان بدرکرونگا۔رات کی تاریکی میں شیر خان راستوں میں نکلتاتھا تو وہ فقیروں کی مدد کرتاتھا۔ایک رات فقیر کے سرہانے نقدی رکھ کر جارہاتھا کہ فقیر نے بے ساختہ آواز لگائی کہ اللہ کے کام دیکھیں اس نے دہلی کے بادشاہ کو ہماری مدد کو بھیجا ہے۔شیرخان ان غیبی و امدادی کلمات سن کر شہنشاہ بنے کے خواب دیکھنے لگا۔شیرخان نے بنگال فوج کو ناکوں چنے جبوانے کا عزم کیا تو بنگال کی فوج بھی افغانیوںکو سبق سکھانے کا ارادہ رکھتی تھی مگر شیرخان نے ہوشیاری و دانشمندی سے سورج گڑھ کا معرکہ سرکرلینے کے بعد چنار قلعہ کو بھی فتح کرلیا ۔سورج گڑھ اور چنار قلعہ کو فتح کرنے کے ساتھ ہی لارڈ ملکہ سے شیر خان نے شادی کرلی تو اس کے پاس گراں بہادولت جمع ہوگئی جس کو کام میں لانا چاہتاتھا۔
ہمایوں بابر سے صلح: سلطان سکندر لودھی کے بیٹے سلطان محمود نے اپنے بھائیوں سے مل کر دہلی میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا تو شیر خان نے بھی اس کا ساتھ دیا اور شیرخان نے اس سے یہ وعدہ تحریراً لے لیا کہ اگر اس نے جون پور کو فتح کرلیا تو بنگال و آسام اور بہار جو شیرخان نے بہادری سے فتح کیے تھے وہ اسے واپس کردے گا۔تاہم شیر خان کو جب یہ اطلاع ملی کہ ہمایوں پیش قدمی کررہاہے تو اس نے ہمایوں کو پیغام بھجوایا کہ میںتو یہاں زبردستی لایا گیا ہوں مجھے سلطان محمود سے کوئی سروکارنہیں آپ حملہ کریں میں اپنے ساتھی الگ کرلوں گا۔ہمایوں نے کہلا بھیجا کہ تمہار فائدہ اسی میں ہے کہ ہماراساتھ دو۔ہمایوں کے سامنے ریاست کو مسخر کرنے کے بڑے چیلنج موجود تھے جس کی بناپر وہ بنگال اور چنار کے قیمتی قلعہ کو چھوڑکر گجرات کی سمت روانہ ہوگیا۔شیرخان نے چلاکی و بیداری کے ساتھ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمایوں کو پیغام بھیجا کہ میں آپ کا وفادار رہوں گا بطور ضمانت اپنا بیٹا بھیج رہاہوں حکم عدولی پر اس کو سزا دی دیجئے گا۔گجرات سے ہمایوں پلٹا تو خبرملی کہ شیرخان سرکشی و بغاوت کرچکا ہے۔ہمایوں نے لشکر تیار کرکے قصد کیا تو شیرخان نے چنار قلعہ اور بنگال گوڑ میں اپنے لشکر مضبوط کرلیے۔شیر خان چنار قلعہ کی نگرانی و حفاظت دوسرداروں کو دیکر جنگل میں چلا گیا اور روہتاس کے راجہ چوڑا امنی جو پرانہ دوست تھا کہ ذریعے قلعہ روہتاس میں بناہ گزین ہوا۔یہاں اسے اطلاع ملی کہ چنار پر ہمایوں کا قبضہ ہوگیا ہے تو شیرخان نے خواص خان کے بھائی کو بھائی کا عہدہ و رتبہ دیکر جلال خان کی مدد کے لیے گوڑ بنگال بھیج دیا۔
شاہ کا لقب: ہمایوں کی فتح کی خبر سن کر شیرخان نے بیٹے جلال خان کو حکم دیا کہ گوڑ قلعہ کی لڑائی تیز کردیں ۔یہ پیغام خواص خان نے جلال خان کو کے پاس پہنچ کر یوں سنایا کہ شیرخان بادشاہ نے یہ حکم دیا ہے۔گویا پہلی بار شیرخان کو بادشاہ کا لقب اس کے سردار خواص خان نے دیا۔جلال خان کے ہمراہیوں نے چارو ناچار قلعہ کو فتح کرنے کے لیے لڑائی تیز کردی تو قلعہ فتح کرلیا اور شیرخان کو جلال نے پیغام بھیجا کے قلعہ ہم نے فتح کرلیا ہے اور اس میں بہادری و جرأت کا شاندار مظاہرہ خواص خان نے کیا ہے۔شیرخان نے ہمایوں کو پیغام بھیجا کہ آپ بنگال کا خیال چھوڑ دیں تو بہار میں آپ کو دے دیتاہوں۔ہمایوں نے اول تو قبول کیا لیکن بعد میں سلطان محمود کے کہنے پر کہ میں نے گوڑ قلعہ میں شکست کھائی ہے باقی بنگال میرے تابع ہے اور شیر خان پر اعتماد نہ کریں۔اس پر ہمایوں کا ارادہ بدلااور اس نے اپنے سرداروں کو بہارکھنڈکی پہاڑیوں کی طرف بھیجا کہ وہ شیرخان کے ساتھ مقابلہ کریں۔شیرخانیہ بات جان کر بہت مغموم ہوا کہ ہمایوں کے لیے بے پناہ جانثاری کا بھی مظاہرہ کیا۔ہمایوں کی وعدہ خلافی کے بعد شیر خان جنگلوں میں پناہ گزین ہوکر اپنی فوج کو منظم کرنے لگا۔اس اثناء میں افغان فوج کے جری سردار سیف خان نے شیرخان کو مشورہ دیا کہ وہ یہاں سے فرار ہوجائے میں خود اور اپنے قبیلہ کے لوگوں کے ساتھ ہمایوں اور سلطان محمود کا راستہ روکتاہوں ۔چنانچہ بعد تردد شیرخان جنگل کے راستے فرار ہوگیا۔شیرخان مونگیر میں پہنچا اور وہاں سے گوڑ قلعہ گیا اور اپنے سرداروں سے کہا کہ ہمایوں اس جانب ملتفت ہونے کا ارادہ رکھتاہے جہاں تک ہوسکے اس کی فوج کو روک کر رکھیں ہم گوڑ قلعہ کے خزانے کا انتظام کرلیتے ہیں ۔شیرخان نے گوڑ کے خزانے قلعہ روہتاس میں منتقل کردیئے۔
مغل شہزادے کو شکست: شیرخان بہار و بنگال کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکا تو اس کے راستے میں سد حائل کرنے کے لیے ہمایوں آگے بڑھا لیکن اس کو خبر ملی کے مرزاہندال نے آگرہ میں بغاوت کرلی ہے اور اپنی حکومت کا اعلان کیا ہے۔ہمایوں پر یہ سخت ترین حالت تھی کہ ایک طرف شیر خان طاقتور افغانی فوج کے ہمراہ اس سے ٹکرارہاتھا دوسری جانب اپنے ہی اس کے خلاف بغاوت کررہے تھے۔ہمایوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مرزاہندال کو سبق سکھانے آگرہ جائے گا۔چنانچہ معدودے چند فوجی چھوڑ کر آگرہ کی جانب روانہ ہوا تو شیرخان نے اس موقع کو غنیمت جان کر سرداروں سے مشورہ کیا کہ یہ نادرموقع ہاتھ آیاہے مغل شہزادے کو شکست دینے کا لہذا اس کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئیے ۔ہمایوں کی فوج منتشر اور غیر منظم اور تعداد میں بھی کم ہے۔ہمایوں کو بھنک لگی تو اس نے فوج کو شیرخان کی جانب بڑھنے کا حکم دیا۔ادھر شیرخان نے ہمایوں کے ساتھ صلح کی کوشش کی کہ تو ہمایوں نے شرائط کے ساتھ قبول کرلیا ۔ہمایوں نے اپنے سفیر شیخ خلیل جو کہ فرید الدین گنج شکر کی نسل سے تھے کو شیرخان کے پاس بھیجا کہ شیرخان موجودہ مقام سے کچھ کوس پسپائی کرلے اور ہم اس کا پیچھا کرکے واپس لوٹ جائیں گے۔شیخ خلیل نے شیرخان کی کرم نوازی و دلجوئی کو دیکھا تو اس نے کہا کہ تم مجھ سے مشورہ کررہے ہوتو مشورہ نیک نیتی سے دیتے ہیں آج موقع ہے ہمایوں سے بھڑ جانے کا اس کی فوج کی صفیں غیر مستحکم ہیں اور آگرہ کی بغاوت سے بادشاہ کی ہیبت ٹوٹ چکی ہے۔ورنہ ہمایوںموقع پاکر پھر تم سے صلح توڑ دے گا۔شیخ خلیل کے مشورہ کے بعد شیرخان نے اپنی فوج کو صورتحال سے آگاہ کرکے اگلی صبح ہمایوں کے لشکر پر حملہ کرنے کا فیصلہ سنایا ۔چنانچہ شیرخان نے طلوع آفتاب سے قبل ہی ہمایوں کی فوج پر حملہ کردیا کہ وہ اپنے خیموں سے نکلنے بھی نہ پائے تھے کہ تہہ تیغ کردئیے گئے اور ہمایوں بھی اپنی جان بچا کر وہاں سے فرار ہوگیا۔شیرخان کی فوج نے دور تک اس کا پیچھا کیا مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔اس فتح کے بعد شیرخان نے اپنا خطاب حضرت اعلیٰ رکھ لیا۔
شیرخان سے شیرشاہ: ہمایوں کو شکست دینے کے بعد شیرخان کو اس کے سردارعیسیٰ خان ،اور ہمایوں اعظم سراونی وغیرہ نے مشورہ دیا کہ اس عظیم فتح کا سہرا آپ کے سرسجھتاہے لہذا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس فتح کے پیغام کو جلد سے جلد پرگنوں اورپورے ہندوستان میںپہنچادیا جائے کہ ہمایوں بابر شیرخان کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچارہوگیا ہے۔اور آپ خلعت سلطانی کو سجاکر تخت نشین ہوجائیں۔شیر خان کی دیرینہ خواہش تکمیل کے مراحل میں تھی اس کے باوجو د اس نے تردد کے ساتھ یہ کہا کہ میرے ساتھ سلطان بہلول لودھی و سکندر لودھی وغیرہ کے عظیم جرنیل موجود ہیں ان کی موجودگی میں یہ عہدہ کیسے قبول کرسکتاہوں اور ویسے بھی ہمایوں بابر زندہ و جاوید فرار ہوگیا ہے ۔پھربھی عظی سرداروں کا اصرار ہے تو منصب قبول کرتاہوں۔اس کے بعد زائچہ نکالنے کا حکم دیا اور نجومیوں نے مطلع کیا کہ اگر آپ اس وقت منصب بادشاہت پر براجمان ہوتے ہیں تو آپ کی فوج کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکے گا۔شیرخان نے تخت نشین ہوکر اپنے لیے شیرشاہ کا خطاب مقرر کیا۔
شیرشاہ کی خدمات: شیرشاہ کا سفر فرید خان سے شروع ہوکر شیرخان اور پھر شیرشاہ تک پہنچا۔تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ ایک غیر فوجی اور عام انسان اپنی لیاقت و قابلیت کی بدولت پے درپے حکام و سلاطین کو شکست دے کر تخت نشین ہوا۔شیر خان کا دور حکومت نہایت مختصر تھا مگر اس نے برصغیر پر حکومت کرنے والے تمام حکمرانوں کی خدمات کو شرمندہ کردیا کہ اس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت جو 1540ء سے شروع ہوا اور 1545ء پر ختم ہوا میں اپنی سلطنت کے طول وعرض میں انصاف کا بول بالا کیا۔رعایا کو بہم سہولیات پہنچائی۔ڈاکوئوں اور عاملوں کے مظالم کو عوام کو آشتی فراہم کی۔بلوچ اور لنگاہ سرداروں کی سرکشی کا خاتمہ کرنے کے لیے میر چاکر بلوچ اور ہیبت خان نیازی سے مدد لی۔سلطنت کے امور چلانے میں بے مثال دورگزاراکہ اگر کوئی چوری یا قتل کا مجرم نہ ملتا تو عاملوں اور حاکموں کو اس جرم کی سزا بھگتنی پڑجاتیتھی۔ اس خوف سے عامل و حاکم اور مقدم کسی بھی طرح ظلم و ناانصافی کرنے سے مجتنب ہوگئے۔شیرشاہ نے کسانوں کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کیں اور اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ کسان خوشحال ہے تو ہندوستان ترقی کریگا۔شیرشاہ کے پایہ تخت سے لیکر بنگال، دہلی،لاہور،پشاور ، ملتان،سندھ اور کشمیر تک رواداری و امن و سکون کا دوردورہ تھا۔شیرشاہ نے سامان تجارت کی نقل و حمل اور سیر و سیاحت کے لیے راستے بنوائے ۔کشمیر اور گھکھڑکے ڈاکوئوں کی سرکوبی کے لیے مضبوط قلعہ روہتاس قائم کیا جو آج بھی پنجاب پاکستان کے شمالی علاقہ میں موجود ہے۔شیرشاہ نے ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا۔شیرشاہ امور ریاست چلانے میں محوہونے کے باوجود اپنی روزانہ کے معمولات میں عبادت و ریاضت کے عنصر کو غائب نہ ہونے دیتاتھا۔شیرشاہ نے کئی شاہرائیں قائم کرنے کے ساتھ ان کے گردو نواح میں سرائیں اور شہر قائم کرائے ۔پرگنوں میں مستقل عامل مقرر کیے۔انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے عدالتوں کا جال بچھوایا۔شیرشاہ نے مضبوط و مربوط فوجی نظام قائم کیا جس کے سبب اس نے اپنے دشمنوں کو پورے ہندوستان میں شکست دیدی۔شیرشاہ علماء و مشائخ اور اہل علم پر فیاضی کرنے کے ساتھ عام رعایا پر بھی اپنی سخاوت کے دریاکو بہاتاتھا۔
گرینڈ ٹرنک روڈ: جرنیلی سڑک یا شاہراہ اعظم یہ ایک قدیمی راستہ تھا کہ یہاں سے موریائی 03قبل مسیح اور سکندر اعظم اور دیگر تجارتی و فوجی قافلوں کی راہ گزر کے طورپر موجود رہی ۔اس کا نام انگریز دور میں گرینڈ ٹرنگ روڈ رکھ دیا گیا۔شیرشاہ سوری نے سہسرام کو آگرہ سے ملانے کے لیے ایک سڑک تعمیر کرائی اور پھر اس کو مغرب کی جانب ملتان اور مشرق کی جانب سونار گائوں بنگاتک بڑھادیا۔بعد میں کلکتہ سے پشاور تک یہ سڑک ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہمیت اختیار کرگئی۔شیرشاہ کے جانشینوں اور بعدمیں مغلوں نے اس سڑک کو ترقی دی۔شیر شاہ سوری نے اس سڑک کو ایک مربوط نظام کے ساتھ منظم کردیا تھا۔شیرشاہ سوری نے اس سڑک پر سائنٹفک انداز سے چیک پوسٹیں قائم کیں۔(شیر پور اور شیر گڑھ )،باولیاںاور سرائیں بنوادیں۔سڑک کے دائیں اور بائیں درخت لگوائے تاکہ گرمی کی شدت سے مسافر مامون رہیں۔سڑک کی حفاظت کا معقول انتظام کیا اور ڈااک و تجارت میں برق رفتاری پیدا کرنے کی خاطر اس سڑک کو ہموار کرایا۔سڑک پر سنگ میل نصب کرائے اور دو دو تین تین کوس (میل)پر قصبے اور علاقے آباد کرنے کے ساتھ چیک پوسٹیں قائم کیں اور ان کے قریب مہمان خانے اور مسجد اور کنواں بھی کھودوایا۔تاکہ مسافر آرام و سکون کے ساتھ یہاں سے سفر کریں اور بھوک و پیاس کی شدت یا تھاکوٹ کو دور کرنے کے لیے سستالیں۔سڑک پر موجود طعام خانے میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے لیے الگ الگ نظام موجود تھا۔
شاہراہ شیر شاہ سوری : شاہراہ شیرشاہ سوری کا راہ گزر کچھ یوں تھا کہ چٹاگانگ سے یہ سڑکیں سونار گائوں (ضلع نارائن گنج بنگلہ دیش)سے کلکتہ کے ذریعے بھارت میں داخل ہوتی ہے اور پھر بردھمان، درگاہ پور، اسنسول،دھن آباد، اورنگ آباد، دہری انسونی، سہسرام،موہنیا، مغل سرائے،ورنسی ،الہ آباد، کانپور،کلیان پور، قنوج، عطا،علی گڑھ، غازی آباد، پانی پت، کرنال، انبالہ، لدھیان،جالندھر، اور پھر امرتسر پہنچتی ہے۔دہلی اور کلکتہ کی شاہراہ کو آج کل NH2یعنی نیشنل ہائی وے نمبر دو کہا جاتاہے ۔اس کے بعد NH5ہے جو پاکستان کے شہر لاہور میں سے گزرتی ہے۔یہ شاہراہ مریدکے، کامونکے، گوجرانوالہ، راہوالی، گھکھڑمنڈی،وزیرآباد، گجرات، لالہ موسیٰ، کھاریاں، جہلم، دینہ ،سوہاوہ، گوجرخان، روات، راولپنڈی، اٹک، نوشہرہ، پشاور سے لنڈی کوتل پہنچتی ہے اور پھر درہ خیبر میں سے جلال آباد، سروبی ہوکر افغانستان کے دارالحکومت کابل تک پہنچتی ہے۔اس شاہراہ کے گردو پیش میں سیکڑوں سڑکیں نکلتی ہیں جو قرب و جوار کے قصبوں اور دیہاتوں کو اس کے ساتھ ملاتی ہیں۔اس شاہراہ کا یہ مربوط سلسلہ اس لیے بھی قائم کیا گیا تھا کہ جب بادشاہ کے کھانے کا وقت ہوتا تو اس کے ساتھ ہی مسافروں کے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتاتھا اور اس وقت کی نشاندہی و اعلان کے لیے ایک نقارہ بجایا جاتاتھا اور یہ نقارہ بیک وقت پورے ہندوستان میں بج جاتاتھا کہ اس شاہراہ کے اطراف کے مہمان خانوں میں مہمانوں کو کھانہ فراہم کردیا جاتاتھا۔
شیرشاہ سوری کی وفات: شیرشاہ سوری کی حکومت اس قدر شاندار تھی کہ جلال الدین اکبر نے اس کے اصول حکومت کو بطور رہنما اختیار کیا ۔لیکن بدقسمتی سے شیرشاہ سوری کو مناسب جانشین نہ مل سکا اور جلد ہی ہمایوں بابر جو شیرشاہ سے شکست کھانے کے بعد آگرہ ،دہلی ،لاہور،ملتان اور سندھ کے راستے ایران فراہوگیا تھا شیر شاہ کی وفات کی بعد واپس لوٹا اور شیرشاہ کے وارثوں سے خلعت سلطنت چھین لی۔شیرشاہ سوری کو حکومت ملتے ساتھ ہی امن و سکون کی زندگی کا موقع ہاتھ نہ آیا برابر وہ سرکشوں اور باغیوں کی سرکوبی میں مصروف رہااسی سلسلہ میں کالنجر قلعہ کے محاصرہ کے دوران بارود خانہ پھٹنے سے شیرشاہ شدید زخمی ہوا اور قلعہ کی فتح کی خبر سنتے ساتھ ہی ساڑھے پانچ سالہ دورحکومت گزارنے کے بعد22مئی1545ء خالق حقیقی سا جاملا۔
خلاصہ کلام: برصغیر میں بہت سے حکمران آئے اور انہوں نے اپنے جوہر منوائے لیکن تاریخ میں شیرشاہ سوری کا نام ایک منفرد و امتیازی مقام کا حامل ہے۔ شیرشاہ سوری کی خاص صفت یہ تھی کہ وہ رعایا پرور تھا اس کی ہمہ جہت کوشش تھی کہ وہ عامة الناس کی زندگیوں میں خوشحالی پیدا کرسکے ان کو نقل و حمل کی سہولت اور ان کو ڈاکوئوں اور لٹیروں سے محفوظ کرسکے اس کا یہ یقین تھا کہ ریاست میں کوئی بھی خرابی نہیں درآسکتی تاوقتیکہ اس کولانے یا تحریک کا کام حاکم و عامل اور گورنر و نواب نہ کریں۔اس نے اپنے اردگرد دیانت دار و امین لوگوں کو تعینات کیا اور وہ کسی بھی ضلع میں ایک سال سے زائد کسی کو مقرر نہ کرتاتھا ۔وہ عبادت و ریاضت میں اپنی مثال آپ تھا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شیرشاہ سوری کی مثالی خدمات کو بطور رہنماء استعمال کیا جائے کیونکہ یہ کسی نبی و صدیق کی زندگی نہیں کہ اس کو اختیار کرنا مشکل ہو بلکہ یہ ایک سچے مسلمان کی زندگی ہے کہ اس کے اچھے اور بھلائی کے کاموں کو اپنے ماتحت ملک و ریاست میں نافذ العمل کیا جائے۔تحریک نفاذ اردو پاکستان کے مرکزی ناظم اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے جہاں پر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہوں کہ ملک میں قومی زبان کو فی الفور نافذ کیا جائے بعینہ اسی طرح حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جی ٹی روڈ یہ نام انگریزوں نے مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے تبدیلی کیا تھا کو شاہراہ شیرشاہ سوری سے موسوم کیا جائے تاکہ نئی نسل اپنے محسنوں اور عوام دوست صالح حکمرانوں کی تاریخ سے تادم زیست روشناس رہ سکے۔